رسائی کے لنکس

بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات؛ 'دہلی کے ساتھ اچھے رشتے بیجنگ کے مفاد میں ہیں'


  • ایس جے شنکر اور وانگ یی نے برازیل میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔
  • جے شنکر اور وانگ یی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اعتماد کی بحالی اور باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے متعدد امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔
  • بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں بات چیت کو اہم قرار دیا۔
  • ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین بھی یہ بات سمجھ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اس کے مفاد میں ہیں: سینئر تجزیہ کار اسد مرزا

نئی دہلی -- بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان برازیل میں ملاقات ہوئی ہے جسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

ایس جے شنکر اور وانگ یی نے برازیل میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ وزرائے دفاع راج ناتھ سنگھ اور ایڈمرل ڈانگ جونگ لاؤس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔

روس کے شہر کازان میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر 23 اکتوبر کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد یہ پہلی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہیں۔

مودی اور شی کی ملاقات سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان ایل اے سی پر فوجوں کی واپسی اور گشت کے سلسلے میں ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔

یاد رہے کہ مئی 2020 میں وادی گلوان میں پینگانگ جھیل کے ساحل پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان خونیں ٹکراؤ کے بعد جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے، باہمی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔

جے شنکر اور وانگ یی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اعتماد کی بحالی اور باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے متعدد امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔

تعلقات مزید آگے بڑھانے پر اتفاق

بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں بات چیت کو اہم قرار دیا اور کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات کی نشان دہی کی کہ سرحد پر فوجوں کی واپسی سے متعلق معاہدے سے امن و استحکام کی بحالی میں مدد ملی ہے۔

بیان کے مطابق فریقین نے اس پر رضامدی ظاہر کی کہ سرحدی امور پر گفت و شنید کے لیے دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندے یعنی بھارت کے سیکریٹری خارجہ اور چین کے وائس منسٹر جلد ہی ملاقات کریں گے۔

یاد رہے کہ خصوصی نمائندوں کی آخری بات چیت 21 دسمبر 2019 کو نئی دہلی میں ہوئی تھی۔ بھارت کے خصوصی نمائندے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور چین کے خصوصی نمائندے وزیرِ خارجہ وانگ یی ہیں۔

ایس جے شنکر نے بات چیت کے دوران رابطوں کی دوبارہ بحالی کی اہمیت پر زور دیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں میں براہ راست پروازوں کو پھر شروع کرنے کو ترجیحی اہمیت دی جا رہی ہے۔

جے شنکر نے زور دے کر کہا کہ ہمارے باہمی تعلقات بہت اہم ہیں اور دونوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کو منصوبے کے مطابق نافذ کیا جا رہا ہے۔

چین نے بھی باہمی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ وانگ یی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے رہنماوں نے کازان میں ملاقات کے دوران تعلقات کو آگے بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ان کے مطابق تعلقات کے استحکام، اختلافات کو دور کرنے اور آگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کار اس پیش رفت کو بہت اہم سمجھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ باہمی رشتوں میں بہتری کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

'بھارت کے ساتھ اچھے رشتے چین کے مفاد میں ہیں'

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین بھی یہ بات سمجھ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اس کے مفاد میں ہے اور جو پیش رفت ہوئی ہے وہ خطے میں ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین مخالف مؤقف کے حامی ہیں اور منتخب ہونے کے بعد انھوں نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ چین کے خلاف اپنی پالیسی اور سخت کریں گے۔ لہٰذا چین بھی بھارت کے ساتھ رشتوں کو بہتر بنانے پر مجبور ہوا ہے۔

واضح رہے کہ جے شنکر اور وانگ یی کی ملاقات سے قبل چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین وزیرِ اعظم مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان اہم اور مشترکہ افہام و تفہیم کو آگے بڑھانے اور مواصلات اور تعاون کو تیز کرنے اور باہمی اسٹریٹجک اعتماد کو میں اضافے کے لیے تیار ہے۔

اسد مرزا نے کہا کہ جے شنکر نے بات چیت کے دوران کثیر قطبی اور اسی کے ساتھ ایشیا قطبی دنیا پر بھی زور دیا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ عالمی امور میں کسی ایک ملک کی بالادستی رہے۔

ان کے مطابق جے شنکر نے اپنے مؤقف سے چین پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ بھارت انڈو پیسفک خطے میں نہ تو اس کی بالادستی چاہتا ہے اور نہ کسی دوسرے ملک کی۔ انھوں نے چین کو یہ پیغام بھی دیا کہ اسے اپنے مؤقف میں نرمی لانا پڑے گی۔

جے شنکر نے وانگ یی سے کہا کہ بھارت کسی بھی ملک کی جانب سے بالادستی قائم کرنے کے لیے یکطرفہ رویے کا مخالف ہے اور وہ دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوسرے ملکوں کے چشمے سے نہیں دیکھتا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت انڈو پیسفک میں چین کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کرے۔ لیکن بھارت اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ جے شنکر نے کہا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی آزاد، غیر جانب دار اور اصولوں کی بنیاد پر ہے اور وہ اس پر پابندی سے قائم ہے۔

اسد مرزا کے خیال میں چین نے یہ بات محسوس کی ہے کہ باہمی تجارت کو کرونا سے قبل کی پوزیشن پر لانے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست پروازوں کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کار کے خیال میں پروازوں کے شروع ہونے سے تجارت پر خوش گوار اثر پڑے گا۔

متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین ایک بڑی معیشت ہے اور بھارت عالمی سطح پر تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے عزائم ہیں۔ ان عزائم کی تکمیل کے لیے مثبت رویے کی ضرورت ہے نہ کہ منفی ر ویے کی۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں عالمی قائد بن کر ابھرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر امریکہ نے اپنی پالیسی مزید سخت کر دی تو اس کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت نے بھی کافی ترقی کی ہے۔ اس کے پاس دفاعی اور غیر دفاعی دونوں قسم کی صلاحیتیں ہیں اور چین کے خیال میں بھارت اس کے عزائم کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کار کے مطابق بھارت بھی علاقائی قائد بننے کے عزائم رکھتا ہے۔ لہٰذا اسے بھی چین کے ساتھ اپنے رشتوں کو بہر بنانا ہو گا۔ مجموعی طور پر دونوں کے باہمی مفادات انہیں اس بات کے لیے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کو ختم کریں اور باہمی رشتوں کو بہتر بنائیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں رہنما ایل اے سی کی صورتِ حال پر گہرائی سے بات چیت کریں گے اور کشیدگی کو کم کرنے کے سلسلے میں مزید اتفاق رائے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

یاد رہے کہ چین میں وزیرِ دفاع کا عہدہ رسمی ہوتا ہے اور اسے دوسرے ملکوں کے ساتھ دفاعی سفارت کاری میں سرکاری نمائندے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اسی لیے اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت چین تعلقات کے ضمن میں راج ناتھ سنگھ اور ڈانگ جونگ کی ملاقات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت ایس جے شنکر اور وانگ یی کی ملاقات کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG