بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بدھ کے روز پارلیمنٹ کو بتایا کہ ملک کے جوہری پروگرام میں اعلیٰ ترین معیاروں کو ملحوظ رکھا جارہاہے اور جوہری توانائی کے حصول سے دست بردار ہونا قومی مفاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مسٹر سنگھ ایوان میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے جس میں ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ آیا بھارت بھی جوہری بجلی کا استعمال ترک کرسکتا ہے جس طرح جرمنی نے جاپان میں فوکو شیما پاور پلانٹ کے بحران کے بعد اپنی توجہ جوہری توانائی سے دوبارہ قابل استعمال کے ذرائع سے بجلی کے حصول پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کا کہناتھا کہ ہم اپنی جوہری تنصیبات کی حفاظت کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم جوہری ذرائع سے بجلی کا حصول ترک نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا کرنا ہمارے قومی مفادات کے خلاف ہوگا۔
وزیر اعظم سنگھ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تامل ناڈو میں قائم کیا جانے والا ایک جوہری بجلی گھر پیداوار شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
کودم کلام میں جوہری بجلی گھر کے قیام کے خلاف ماحولیات کے کارکن اور مقامی باشندے احتجاج کرچکے ہیں۔
حکومت کا کہناہے کہ اس تنصیب کا پہلا ری ایکٹر جلد ہی ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کردے گا۔
بھارت اگلے 20 برسوں میں جوہری ذرائع سے بجلی کی پیدوار 62ہزار میگا واٹ تک لے جانا چاہتا ہے اور اس کا ہدف 2050ء تک بجلی کی کل پیدوار میں جوہری توانائی کا حصہ 25 فی صد تک پہنچانے کا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارت کو توانائی کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کنا پڑرہاہے ، اس کے لیے قابل بھروسہ مقامی وسائل سے بجلی کا حصول زیادہ کشش رکھتا ہے۔
بھارت پر اس وقت امریکہ کی جانب سے یہ دباؤ ہے کہ وہ ایران سے اپنی تیل کی درآمدت میں کمی کرے ۔ ایران بھارت کو خام تیل مہیا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
منگل کے روز بھارت نے کہا تھا کہ وہ اگلے مالی سال کے دوران ایران سے اپنی تیل کی درآمدات میں 11 فی صد کمی کررہاہے۔ جب کہ بھارت کے لیے اس وقت ایک اور چیلنج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ہے جو اس وقت اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
بھارت کا کہناہے کہ وہ اپنی تیل کی درآمدت کو زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کررہاہے۔