چینا سِکّا ان بہت سی بھارتی عورتوں کی طرح ہیں جو دفتروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کی شفٹ کافی دیر سے ختم ہوتی ہے ۔ کمپنی کی گاڑی انہیں ان کے گھر کے قریب چھوڑ دیتی ہے ۔ لیکن انہیں گھر کے دروازے تک پہنچے کے لیے پانچ دس منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’اندھیرا ہو چکا ہوتا ہے اور میرے ارد گرد جس قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ان میں آ پ خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے۔‘‘
لہٰذا کمپنی کی گاڑی جیسے ہی انہیں اتارتی ہے، سِکّا اپنے موبائل فون میں ایک پروگرام آن کر لیتی ہیں جسے ’’فائٹ بیک‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ پروگرام جی پی ایس کے ذریعے یہ بتانا شروع کر دیتا ہے کہ وہ اس وقت ٹھیک کس مقام پر ہیں۔ جگدیش مترا اس ٹیک کمپنی کے سی ای او ہیں جس نے فائٹ بیک پروگرام تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’آپ کو جیسے ہی کوئی پریشانی محسوس ہو، آپ کو اور کچھ نہیں کرنا ہے ، بس ایک بٹن دبانا ہے۔‘‘
جیسے ہی کوئی خاتون خطرے کا بٹن دباتی ہیں، اس کے بعد ان کے پاس چند سیکنڈ ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں، تو ٹیکسٹ میسیج، ای میل اور فیس بُک کےذریعے ، فوراً ان کے محل وقوع کے بارے میں ایک پیغام ان کے دوستوں یا گھرانے کے نام چلا جاتا ہے جن کے نام انھوں نے فہرست میں شامل کیے ہوتے ہیں۔
اس پروگرام کو استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا ایک انٹریکٹو نقشے پر اکٹھا کر لیا جاتا ہے ۔ مترا کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی نقشے پر نظر رکھتی ہے لیکن کسی پبلک مانیٹرنگ سینٹر کی طرح کام نہیں کرتی۔’’قانونی سہولتیں فراہم کرنا ہمارا کام نہیں ہے ۔ صرف وہی لوگ قانونی فرائض انجام دے سکتے ہیں جنہیں اس کا اختیار حاصل ہے، یعنی پولیس اور ایسے ہی دوسرے سرکاری ادارے۔‘‘
2010 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، نئی دہلی میں جنسی حملوں کے 400 سے زیادہ واقعات ہوئے۔ میڈیا کی بہت سی تنظیموں نے اس شہر کو بھارت میں آبرو ریزی کے صدر مقام کا لیبل لگا دیا ہے۔ کلپنا وسوا ناتھ، عورتوں کے حقوق کے لیے جد وجہد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ اگرچہ یہ پروگرام بہت اہم ہے، اور اسے ایک اہم رول ادا کرنا ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں محتاط رہنا چاہیئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ایک بار پھر عورتوں کے سر ڈال دی جائے۔‘‘
کلپنا وسوا ناتھ عورتوں کے حقوق کی تنظیم جاگوری میں ریسرچ کرتی ہیں۔ یہ تنظیم شہروں کو عورتوں کے لیے محفوظ بنانے کا کام کرتی ہے۔’’ہم کس قسم کے شہر چاہتے ہیں؟۔ ہماری آبادی تیزی سے شہروں میں منتقل ہو رہی ہے، اور اگلے 20 برسوں میں بھارت کی آبادی کی اکثریت دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہو جائے گی۔ لہٰذا اگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ، کلچر ، ہماری پولیس اور بنیادی سہولتیں ناقص ہیں، تو ہمیں ان امور پر توجہ دینی چاہیئے۔‘‘
ہنڈول سنگپتا ایک شہری تنظیم کے بانی ہیں جو فائٹ بیک پروگرام کے شراکت دار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے تحفظ کی شکایتوں پر عمل در آمد میں، پولیس نیم دلی سے کام لیتی ہے ۔’’ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس یہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعے اگر آپ چاہیں تو پولیس کے پاس جا سکتے ہیں، اور آپ کو ایسا ضرور کرنا چاہیئے ۔ لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پولیس کے پاس نہیں جائیں گے، یا اگر کسی وجہ سے آپ ایساکر نہیں سکتے، تو آپ براہِ راست اپنے دوستوں اور گھرانے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ سکیورٹی کے پورے نظام کو حرکت میں لا سکتے ہیں اور انہیں کارروائی کرنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔‘‘
فائٹ بیک کو تیار کرنے والے کہتے ہیں کہ دہلی میں اور بھارت کے دوسرے شہروں میں، پولیس کے اعلیٰ افسروں نے اس پروگرام کے ساتھ باقاعدہ تعلق قائم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ اس تجویز کی منظور ی اور اس پر عمل درآمد میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔