بھارتی وزیر برائے آبی وسائل، ٹرانسپورٹ، شپنگ اور ہائی ویز نیتن گڈکاری نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب دریاؤں کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے اور روکا جانے والا پانی پاکستان کی بجائے بھارتی ریاستوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کو دے دیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈ بینک کی وساطت سے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس پر بھارت کے اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کی رو سے مشرق کی جانب بہنے والے تین دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کے پانی کا کنٹرول بھارت کو دیا گیا جب کہ مغربی علاقے میں بہنے والے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی کا کنٹرول پاکستان کے حصے میں آیا۔
تاہم بھارتی وزیر نیتن گڈکاری کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ پرامن اور دوستانہ تعلقات کے تناظر میں طے کیا گیا تھا اور بھارت اور پاکستان کے تعلقات اب ویسے نہیں رہے۔ لہذا بقول اُن کے اب بھارت پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کا پابند نہیں رہا۔
اُنہوں نے یہ بات اپنی انتخابی مہم کے دوران بدھ کے روز امرتسر میں ایک نیوز کانفرنس میں کہی۔
’جب 1947 میں سر ریڈکلف نے برصغیر کی تقسیم کے خدوخال تیار کیے تو یہ بات شاید اُن کے ذہن میں بھی نہ آئی کہ قطعہ زمین کا بٹوارہ تو کر دیا گیا لیکن دریاؤں کے پانیوں جیسے بہتے ہوئے وسائل کی تقسیم کیونکر ہو گی‘۔
معروف دانشور ڈینئل ہینز 2017 میں چھپنے والی کتاب Indus Divided میں خود مختار ریاستوں کے درمیان سے گزرنے والے دریاؤں اور وسائل پر اختیار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سڑکوں اور ٹرینوں کو سرحد پر روکا جا سکتا ہے لیکن دریاؤں میں بہتے ہوئے پانی پر کس کا اختیار ہوتا ہے۔ کیونکر بہتے ہوئے پانیوں پر کوئی رکاوٹیں یا کسٹمز چوکیاں نہیں ہوتیں۔ اُن پر صرف ڈیم بنائے اور نہریں نکالی جا سکتی ہیں‘۔
یوں اگر یہ طے کر لیا جائے کہ صرف اسی ملک کا دریاؤں پر حق ہو گا جہاں سے یہ دریا شروع ہوتے ہیں تو بر صغیر کے بیشتر دریا بھارت کی بجائے تبت سے شروع ہوتے ہیں جو چین کے دائرہ اختیار میں ہے۔
یوں 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے دو برس بعد ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی وسائل پر محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا تھا اور پاکستان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ پانی کے بہاؤ میں کسی تبدیلی یا رکاوٹ پیدا کرنے کے نتیجے میں پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ایسا کوئی اقدام دونوں ہمسایہ ممالک کو جنگ کے دہانے تک لے جا سکتا ہے۔
پاکستان بالآخر یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر لے گیا اور آزادی کے لگ بھگ 13 سال بعد ورلڈ بینک کی وساطت سے بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پا گیا جس پر بھارت اور پاکستان کے علاوہ ورلڈ بینک نے بھی ضمانت کنندہ کے طور پر دستخط کئے۔
اس معاہدے کے 60 سال بعد بھارت نے یہ مؤقف اختیار کرنا شروع کر دیا ہے کہ معاہدے کی رو سے بھارت پانی کو پاکستان کی جانب بہنے کی اجازت تو دے سکتا ہے لیکن اس پانی پر اختیار سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔
1960 میں جب سندھ طاس معاہدہ طے پایا، اُس وقت چین کا اس معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ تاہم پاکستان۔چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے اب چین پاکستان میں زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس سرمایہ کاری کی کامیابی کا انحصار یقینی طور پر پانی کا بہاؤ جاری رہنے سے ہے۔ یو ں کیا بھارت کی طرف سے دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش چین کے لیے قابل قبول ہو گی؟
امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے سینئر ریسرچ فیلو مائیکل اوہین لین کے مطابق اس بات کا امکان کم ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960 میں طے پانے والا پانی کی تقسیم کا معاہدہ زیادہ دیر تک جاری رہے گا۔
وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے مائیکل اوہین لین کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک صورت حال ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو کشمیر کا تنازعہ ہے جو 72 سال گزر جانے کے باوجود حل نہیں ہوا ہے۔ دوسرے ہمالیہ کے پہاڑوں پر جمی برف میں موسمیاتی تبدیلوں کے باعث کمی ہوتی جا رہی ہے اور اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کی آبادی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ہمسایہ ممالک آبی وسائل کے مسئلے پر خطرناک صورت حال سے دوچار ہو جائیں اور یہ معاہدہ مؤثر نہ رہے۔
یوں اگر بھارتی وزیر برائے آبی وسائل نیتش گڈکاری کے بیان کو انتخابی مہم کے دوران دیے جانے والے روایتی بیانات سے ہٹ کر سنجیدگی سے لیا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا برصغیر میں آئندہ جنگ آبی وسائل کی عدم دستیابی پر ہو گی؟