رسائی کے لنکس

دفعہ 370 کی منسوخی کے بل پر لوک سبھا میں بحث


دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف کلکتہ میں مظاہرہ۔ 6 اگست 2019
دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف کلکتہ میں مظاہرہ۔ 6 اگست 2019

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بل پر پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بحث جاری ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے اس کی تفصیلات بتائیں۔

جب اپوزیشن ارکان نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ صرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بات کر رہے ہیں یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھی اس میں شامل ہے تو انہوں نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں مانتے؟

امت شاہ نے کہا کہ ”ہم کشمیر کے لیے جان دے دیں گے“۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب وہ جموں و کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور اقصائی چن بھی شامل ہیں۔

لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری نے دفعہ 370 کے خاتمے کے اقدام کے پس پردہ حکومت کے عزائم پر سوال اٹھایا۔

کانگریس کے سینئر رکن منیش تیواری نے کہا کہ حکومت نے ایسا فیصلہ کیوں کیا اور کشمیری عوام کو حیرت میں کیوں ڈال دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دستور میں دفعہ 371 بھی ہے جس کے تحت ناگالینڈ، آسام، منی پوری، آندھرا اور سکم کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں، تو کیا حکومت اس دفعہ کو بھی ختم کر رہی ہے۔

منیش تیواری نے دفعہ 370 کے خاتمے کو آئینی المیہ قرار دیا۔

سینئر رہنما ششی تھرور نے کہا کہ کانگریس کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ہمیں فخر ہے کہ کشمیری عوام ہمارے بھائی ہیں۔

مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت کے قدم کا خیر مقدم کیا اور اسے تاریخی قرار دیا۔

ڈی ایم کے کے ٹی آر بالو نے حکومت کی طرف انگشت نمائی کی اور اس کی نیت پر سوال اٹھایا۔

ترنمول کانگریس کے سدیپ بندو پادھیائے نے کہا کہ کشمیر میں ظلم و زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد انہوں نے واک آوٹ کیا۔

حکومت کی ایک حلیف جماعت جنتا دل یو نے بھی بل کی مخالفت کی۔ پارٹی کے رکن راجیو رنجن نے کہا کہ حکومت کو متنازعہ ایشوز اٹھانے کی بجائے دہشت گردی سے لڑنے پر توجہ دینی چاہیے۔

پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے کہا اس وقت پورا ملک بل کی حمایت کر رہا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کانگریس اس کی مخالفت کر رہی ہے۔

ادھر ایک وکیل ایم ایل شرما نے دفعہ 370 کی منسوخی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت کے اس قدم کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبد اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ان کو ختم کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے امت شاہ کے اس بیان کی تردید کی کہ انہیں نظر بند نہیں کیا گیا ہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر میں ہیں۔

امت شاہ نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فاروق عبد اللہ کو نظربند نہیں کیا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر میں ہیں۔

خیال رہے کہ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

کانگریس رہنما راہول گاندھی نے کشمیری رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ سیاسی قیادت کے فقدان کا فائدہ دہشت گرد اٹھائیں گے اور خالی جگہ کو پر کرنے کی کوشش کریں گے۔

انسانی حقوق کے ایک کارکن اتل کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ نوٹ بندی جیسا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ لیکن وہ اب بھی جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بائیں بازو کی جانب سے 7 اگست کو ملک کے مختلف حصوں میں دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت میں کشمیر کے لیے حکومت کے مذاکرات کار کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ایم ایم انصاری نے حکومت کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا اور کہا حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہو گئی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اس قدم سے مسئلہ کشمیر مزید سو سال کے لیے زندہ ہو جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG