رسائی کے لنکس

یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وادئ کشمیر میں ہڑتال


جموں کشمیر لبریشن فرںٹ کے لیڈر محمد یاسین ملک، فائل فوٹو
جموں کشمیر لبریشن فرںٹ کے لیڈر محمد یاسین ملک، فائل فوٹو

جموں کشمیر لبریشن فرںٹ (جے کے ایل ایف) کے محبوس لیڈر محمد یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے منگل کو وادئ کشمیر میں ایک عام ہڑتال کی گئی۔

ہڑتال کے لیے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی۔ اتحاد نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے حراست کے دوران یاسین ملک کے ساتھ ناروا سلوک کیا، جس کے خلاف انہوں نے دِلّی کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔

بھوک ہڑتال کے دوران جب یاسین ملک کی حالت غیر ہو گئی تو انہیں بھارتی دارالحکومت کے رام منوہر لوہیا اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے این آئی اے اور ایک اور سرکاری ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ پر کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت سے وابستہ لیڈروں اور کارکنوں، ان کے اہلِ خانہ، سرکردہ تاجروں، ٹریڈ یونین لیڈروں اور دوسرے سرکردہ افراد کو تنگ کرنے کے لیے طلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔

جے کے ایل ایف متنازع کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی ایک جماعت ہے اور ریاست کے دونوں حصوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم ہے۔ جے کے ایل ایف کو بھارتی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

53 سالہ یاسین ملک کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے اس سال مارچ میں ریاست کے ایک سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کرنے کے بعد سرینگر سے سرمائی دارالحکومت جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کیا تھا۔ بعد ازاں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ کے ایک مبینہ معاملے میں ان کے نام وارنٹ جاری کیا۔ این آئی اے نے انھیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد دِلّی کی تہاڑ جیل منتقل کیا۔ این آئی اے ریمانڈ کے دوران یاسین ملک اپنے ساتھ مبینہ طور پر ہتک آمیز سلوک کیے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔

یاسین ملک پر 1990ء میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز پر اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے اور سری نگر میں بھارتی فضائیہ کے چار اہل کاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات بھی ہیں۔

بھارت کے ایک اور قومی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی) نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ سے ان معاملات کو دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کی ہے۔ عدالتِ عالیہ نے اس سلسلے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔

بھارتی کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشِ نظر اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ریاست کی ایک سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا "میں حکومت بھارت سے یاسین ملک کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ انھیں مناسب طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ خدا نخواستہ اگر ان کے ساتھ کچھ بُرا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ تباہ کُن ہو گا"۔

انہوں نے بھارتی حکومت سے یاسین ملک کی پاکستانی بیوی مشعال حسین ملک اور بیٹی رضیہ سلطانہ کو بھارت آ کر اُن سے ملنے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی۔

مشعال ملک نے اتوار کو لاہور پریس کلب میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی سات سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کے ہمراہ بھارت جا کر اپنے علیل شوہر سے ملنا چاہتی ہیں۔

انھوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے اور کشمیریوں کے ساتھ بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر ڈھائے جا رہے مظالم کو پوری قوت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے سامنے اٹھائے۔

اس سے پہلے سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس میں بات کرتے ہوئے یاسین ملک کی والدہ اور بہنوں نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی حکومت انہیں اُن کی صحت کے بارے میں جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ اُنہیں یاسین ملک کے وکیل نے بتایا ہے کہ بھارتی عہدیدار اسے یہ اطلاع دینے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اُس کا موکل 12 روز سے بھوک ہڑتال پر ہے اور اب اُسے جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یاسین ملک نے بھوک ہڑتال اُنھیں غیر قانونی طور پر این آئی اے کی تحویل میں دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے کے خلاف شروع کی تھی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کو اپنے بیان میں یاسین ملک کی حراست کے دوران بگڑی صحت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ ’’یاسین ملک کی شدید علالت کے باوجود اور قانونی حقوق اور اخلاقیات کے برخلاف ان کے اہل خانہ کو، جنھیں بڑی دیر کے بعد مطلع کیا گیا ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی‘‘۔

تاہم ترجمان نے اُمید ظاہر کی کہ یاسین ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے جن میں انہیں معقول طبی امداد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ یاسین ملک کو مناسب طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ نیز اُن کے ساتھ قانون کے تحت سلوک کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں لگائے جانے والے الزامات اور خدشات بے بنیاد ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG