کم از کم 6 خاتون صحافیوں نے وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جواد اکبر پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اخبار کے ایڈیٹر تھے تو انھوں نے ان کا جنسی استحصال کیا یا ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا تھا۔
ایم جے اکبر اِس وقت ایک وفد کے ہمراہ نائجیریا کے دورے پر ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں ای میل، فون اور واٹس ایپ کے ذریعے کیے گئے استفسار پر تادم تحریر کوئی جواب نہیں دیا۔
گزشتہ ہفتے بھارت میں جنسی استحصال کے خلاف سوشل میڈیا پر شروع ہوئی مہم MeToo زور پکڑتی جا رہی ہے۔ فلم انڈسٹری سے وابستہ متعدد خواتین نے مرد اداکاروں یا ڈاریکٹروں پر جنسی استحصال کا الزام عائد کیا ہے۔ جس پر کئی لوگوں نے معافی مانگی ہے۔
ایم جے اکبر پہلے سیاست دان ہیں جن پر ایسا الزام عاید کیا گیا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ ایم جے اکبر یا تو اطمینان بخش جواب دیں یا پھر استعفیٰ دیں۔ سینئر کانگریس رہنما اور سابق مرکزی وزیر ایس جے پال ریڈی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اس معاملے کی تفتیش چاہتے ہیں۔ ان کے بقول جب امریکہ کے جسٹس کیونیو سے وضاحت طلب کی جا سکتی ہے تو ایم جے اکبر سے کیوں نہیں۔
یاد رہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے لیے نامزد ہونے والے جج بریٹ کیونو پر ناروا جنسی رویے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی انھوں نے تردید کی تھی۔
کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس بارے میں خاموشی توڑنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
سی پی ایم کی سینئر رہنما برندا کرات کا کہنا ہے کہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ دفاتر اور کام کرنے کی جگہوں پر جنسی استحصال سے متعلق قانون کا نفاذ نہیں ہے۔
صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایم جے اکبر سمیت دیگر تمام صحافیوں پر عائد الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت اور حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک خاتون صحافی سواتی چکرورتی کے مطابق بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اپنے تمام ترجمانوں کو سخت ہدایت دی ہے کہ وہ اس مسئلے پر زبان نہ کھولیں۔ پارٹی ترجمان سمبت پاترا سے جب ایک نیوز کانفرنس میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ایک خاتون صحافی نے وزیر خارجہ سشما سوراج سے جب اس بارے میں سوال پوچھا تو ہ سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
تاہم بہبودی اطفال و خواتین کی مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے ایم جے اکبر کے خلاف الزامات کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور افراد عام طور پر ایسے افعال کے مرتکب ہوتے ہیں۔
وی او اے نے الزام عائد کرنے والی خاتون صحافیوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔