سی ووٹر کے ایک ملک گیر سروے کے مطابق پلوامہ کے دہشت گرد حملے اور آپریشن بالاکوٹ کے بعد حکمران جماعت بی جے پی نے قوم پرستی کا جو ماحول بنایا تھا اس سے عام انتخابات میں اس کو ملنے والے سیاسی فائدے کے امکانات کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی گرتی مقبولیت کو جو سہارا ملا تھا وہ بھی کمزور پڑ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب مودی نے اپنی تقریروں میں مبینہ طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کا ذکر کم کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب بی جے پی فرقہ وارایت کے اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے۔
مودی نے اپنی ایک تقریر میں سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں ملزموں کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی تھی جس سے ہندووں کو تکلیف پہنچی، وہ اس سے ناراض ہو گئے اور کانگریس کو سزا دینا چاہتے ہیں۔
مودی نے کیرالہ کے علاقے ویاناڈ سے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے الیکشن لڑنے کو بھی ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ وہاں ہندو اقلیت میں ہیں اس لیے راہل وہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
کانگریس نے اس پر مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ وہ اپنی شکست کو بھانپ کر بھارتی تہذیب کی توہین کر رہے ہیں۔ "کیا مختلف مذاہب کے لوگ ملک میں نہیں رہتے۔" خیال رہے کہ ویاناڈ میں ہندو تقریباً پچاس فیصد ہیں۔
نریندر مودی کا کہنا ہے کہ آپریشن بالاکوٹ پر سوال اٹھانے کی وجہ سے کانگریس پارٹی کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہو رہی ہے۔
ایک معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔
ایک سینئر صحافی عارفہ خانم شیروانی بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب مودی نے بھی جو کہ بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما ہیں انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول "جس مسلم دشمن سیاست کا بدصورت چہرہ ہم نے پانچ برسوں میں دیکھا ہے وہی پھر دکھایا جا رہا ہے۔"
ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو یقین نہیں ہے کہ آپریشن بالاکوٹ سے اسے کوئی سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے وہ اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہے۔
مودی اپنی تقریروں میں پاکستان کا نام لے کر رائے دہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آر جے ڈی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مودی دن بھر میں دو سو مرتبہ پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کی کامیابیاں بتائیں۔
وزیر اعظم کی مبینہ فرقہ وارانہ مہم پر ملک کے کئی اخباروں نے اداریے لکھے ہیں اور اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ سات مرحلوں میں ہونے والے بھارتی پارلیمان کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں گیارہ اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔
آخری مرحلے کی پولنگ 19 مئی کو ہو گی اور ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہو گی۔