چار سال قبل بھارت کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر کی محدود خود اختیاری کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اقدام کو پیر کے روزبھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں برقرار رکھاہے ۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے بھارت اور پاکستان کےدرمیان تعلقات میں کسی بہتری کے امکانات ممکنہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں الگ تھلگ ہونےکااحساس مزید بڑھے گا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایک متفقہ فیصلے میں کہا ہےکہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ایک عارضی شق تھی اور 2019 میں ایک ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے اسے ختم کرنے کا فیصلہ آئینی طور پرجائز تھا۔
یہ فیصلہ اس پٹیشن کی سماعت کے بعد سامنے آیا جس میں آئین کی شق 370 کی مودی سرکار کی جانب سے منسوخی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس آئینی شق کے تحت خطے کو اس کا اپنا آئین، پرچم اور تحفظ و مراعات حاصل تھیں ، مثلاً مقامی لوگوں کےلیے زمین کی ملکیت کے حقوق۔
بھارت اور پاکستان کےدرمیان منقسم ہمالیائی علاقہ کشمیر عشروں سے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کی وجہ رہا ہے جس کی ملکیت کے دونوں دعوے دار ہیں۔
پاکستان کا رد عمل
پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے پیر کے روز کہاتھا کہ بھارت کو کشمیری لوگوں اور پاکستان کی مرضی کے خلاف اس متنازع خطے کی حیثیت پر یک طرفہ فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
بھارت کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم اور تجارت معطل کر دی تھی۔
لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان حریفوں کےدرمیان تعلقات میں شدید سرد مہری جاری رہے گی۔
دہلی کے قریب جندال اسکول آف انٹر نیشنل افئیرز کے ڈین، سری رام چاولیہ نے کہا کہ "بھارت نے بنیادی طور پر کشمیر کے بارے میں یہ فیصلہ پاکستان کو ایک غیر اہم فریق کے طور پر پیش کرتے ہوئے کیا ہے ۔ اگر پاکستان اسے مسترد کرتا ہے تو بھی وہ کسی بھی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔"
انہوں نے کہا ، اس لئے تعلقات میں کسی قسم کی گرمجوشی یا بہتری کے حوالے سے اب زیادہ امکانات باقی نہیں بچے ہیں۔
کیا کشمیر عالمی ریڈار پر اوجھل ہے؟
سری رام چاولیہ کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ان کی وجہ سے بھارت امریکہ اور مغرب کے زیادہ قریب ہو گیا ہے۔
بقول ا نکے، یوکرین، اوراسی طرح اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعات کے نتیجے میں کشمیر بین الاقوامی ریڈار سے فی الواقع اوجھل ہو گیا ہے۔
چاولیہ نے کہا ،" بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ واقع اس کی سرحد پر سکون رہے لیکن وہ اس مرحلے پر گفت وشنید کے کسی سلسلے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اس کی توجہ چین سے ملحق اپنی سرحد پر زیادہ مرکوز ہے ۔"
بھارت اور پاکستان کےآئندہ انتخابات اور کشمیر
دونوں ملکوں میں آنے والے مہینوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ پاکستان میں ان کا انعقاد فروری میں ہو گا۔ بھارت میں تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن پولنگ غالباً اپریل میں شروع ہو جائے گی۔
جندال اسکول آف انٹر نیشنل افئیرز میں انٹر نیشنل ریلیشنز کی ایک پروفیسر ، جیوتی ایم پتھانیا کہتی ہیں ، " جنوبی ایشیا کے ان ملکوں میں ہماری ساری توجہ ووٹ بینک کی طرف ہوتی ہے ۔ اس مرحلے پر کوئی بھی فریق امن کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔ دونوں ہی کشمیر پر جارحانہ انداز میں ہی بات کریں گے اور کشمیر پر اپنے موقف کو سخت تر انداز میں پیش کریں گے۔ "
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پاکستا ن کے زیرِ انتظام کشمیر پر دعووں کا اعادہ کیا۔اور پالیمنٹ میں کہا کہ وہ ہمارا ہے اور کوئی بھی اسے ہم سے نہیں لے سکتا ۔
مودی اور بھارتی عوام کا رد عمل
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے آئین کی شق 370 کی منسوخی کا بیشتر بھارتیوں نے خیر مقدم کیاتھا اور ایک مضبوظ قوم پرست لیڈر کے طور پر مودی کو سراہا تھا اور اب سپریم کورٹ کی جانب سے اس اقدام کی توثیق سے ان کے اسٹیٹس کو مزید تقویت ملے گی۔
مودی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں عدالت کے فیصلے کو امید کی ایک کرن اور ایک روشن مستقبل کا وعدہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنی انتہائی دانشمندی کے ساتھ اس اتحاد کی روح کو تقویت دی ہے جسے ہم بھارتی ہونے کے ناطے محبوب رکھتے ہیں اور ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔
کشمیریوں کا رد عمل
کشمیر میں 1990 میں اسلامی عسکریت پسند گروپس کی زیر قیادت شروع ہونے والی علیحدگی پسندوں کی وہ شورش جس میں ہزاروں کشمیریوں کی جانیں جا چکی ہیں ، اب زیادہ تر ماند پڑ چکی ہے ، اگرچہ اکا دکا حملے جاری ہیں۔
تاہم کشمیر میں مقامی مبصرین کے مطابق اس فیصلے سے مایوسی پھیل گئی ہے۔
کشمیری دارالحکومت سری نگر میں ایک سیاسی تجزیہ کار نور محمد بابا نے کہا کہ،" لوگ خوش نہیں ہیں کیوں کہ کشمیر ی لوگ تاریخی طور پر اپنی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں ۔
بہت سے کشمیریوں نے 2019 کے اقدام کو ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علاقے میں زمین کی ملکیت اور مقامی سرکاری ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے کشمیریوں کو حاصل تحفظات اور مراعات کے خاتمے کےایک حربے سے تعبیرکیا ہے۔
حکومت کاموقف
کشمیر جسے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، اب براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں ہے ، جس نے ایسے نئے قوانین منطور کیے ہیں جن کے تحت کشمیر سے باہر کے بھارتیوں کے لیے علاقے کا مستقل رہائشی بننا ممکن ہو گیا ہے۔
حکومت نے کہا ہےکہ نئے اقدامات کشمیر کو باقی بھار ت کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے ، نئے روزگار تشکیل پائیں گے اور معاشی طور پر ترقی کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
تاہم کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انو رادھا بھسین کا کہنا ہےکہ ان اقدامات سے" صرف زمین کا انضمام ہوا ہے کشمیر کے لوگوں کا نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ جو کچھ ہونےوالا ہے اس پر پریشانی اور فکر کا احساس موجود ہے ۔ خطے میں جو ڈیمو گرافک تبدیلی ہو سکتی ہے اس پر علاقے میں حقیقی تشویش موجود ہے۔
کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں کا رد عمل
کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے بھی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیاہے۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ بھارت کا فیصلہ صرف جموں اور کشمیر کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے ( آئیڈیا )خیال کےلیے بھی سزائے موت سے کم نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا ہےکہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ستمبر تک منعقد کرائے جائیں۔
تجزیہ کار نور محمد بابا کہتے ہیں ،’’اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کی سیاسی آوازوں کو اظہار کا موقع مل سکے۔"
فورم