بھارت کی ریاست گجرات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات اور پرتشدد جھڑپوں کے بعد پولیس نے 140 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
فسادات کا سلسلہ گجرات کے علاقے ودودارا میں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک توہین آمیز تصویر 'فیس بک' پر اپ لوڈ کرنے کے نتیجے میں شروع ہوا تھا جسے مسلمانوں نے اپنے عقائد کے خلاف قرار دیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق مشتعل مسلمانوں اور ہندو وں کے گروہوں میں چار روز سے جاری جھڑپوں کے دوران ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے دو کو چاقووں کے وار کرکے زخمی کیا گیا ہے۔
شہر کے پولیس کمشنر کے مطابق فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں 140 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔
مشتعل افراد نے شہر میں کئی مقامات پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا ہے جسے روکنے کے لیے گجرات کی ریاستی حکومت نے پولیس کی بھاری نفری متاثرہ علاقوں میں تعینات کردی ہے۔
فسادات کے باعث شہر میں گزشتہ چار روز سے موبائل انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسجنگ سروس بھی معطل ہے تاکہ کشیدگی کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔
گجرات کی حکومت نے فریقین کے سرکردہ افراد اور مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ شہر میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ودادورا میں یہ فسادات ایک ایسے وقت میں پھوٹے ہیں جب بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں انہوں نے پیر کو صدر براک اوباما سے ملاقات کی اور ان کی جانب سے دیے جانے والے عشائیے میں شرکت کی۔
خیال رہے کہ نریندر مودی گجرات کے وزیرِاعلیٰ رہ چکے ہیں اور ان کے دورِ حکومت میں 2002ء میں گجرات کی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے جن میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
فسادات میں مرنے والوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ کئی حلقے مودی حکومت پر ان فسادات کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے اور ہندو بلوائیوں کی خاموش حمایت کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں لیکن نریندر مودی اس الزام کی ہمیشہ تردید کرتے رہے ہیں۔
امریکہ نے 2005ء میں انہی فسادات سے متعلق لگنے والے الزامات کی بنیاد پر مودی کو ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا اور ان پر ویزے کی یہ غیر اعلانیہ پابندی 2014ء میں بھارت کا وزیرِاعظم بننے تک برقرار رہی تھی۔
مودی کے دورہ امریکہ کے آغاز پر گزشتہ ہفتےانسانی حقوق کی ایک تنظیم نے امریکہ کی ایک عدالت میں عذر داری بھی داخل کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ بھارتی وزیرِاعظم کے خلاف 2002ء کے فسادات میں انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم پر قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔