بھارت اور تین دیگر ممالک کی طرف سے نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کے بعد اب یہ کانفرنس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر ’سارک سیکرٹیریٹ‘ کو اس بارے میں خط تاحال نہیں لکھا گیا ہے، لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سارک کے سربراہ اجلاس میں اگر کوئی ایک رکن ملک بھی شرکت نا کرے تو اسے ملتوی کرنا نا گزیر ہو جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بھارت اور دیگر ممالک نے ’سارک سیکرٹریٹ‘ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے اور جیسے ہی پاکستان کو باضابط طور پر ’سیکرٹریٹ‘ سے خط ملے گا، کانفرنس کو ملتوی کرنے کے لیے اسلام آباد اپنا جواب دے گا۔
پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پانچ مرتبہ سارک سربراہ کانفرنس ملتوی کی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے بعد بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی کہا تھا کہ وہ اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔
بنگلہ دیش کی طرف سے کہا گیا کہ خطے کے ممالک کے مابین تعاون سے متعلق اس وقت ماحول ساز گار نہیں ہے، اسی لیے ڈھاکا نے جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تنظیم سارک کے سربراہ اجلاس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بنگلہ دیش کے حکام کا کہنا ہے کہ سارک میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ، خالصتاً اس کا اپنا ہے۔
اس سے قبل بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر کہا تھا کہ علاقائی تعاون اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے سارک کے موجودہ چیئرمین ملک نیپال کو مطلع کر دیا ہے کہ ایک ملک کی طرف سے خطے میں سرحد پار بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں اور دوسرے رکن ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرس کے کامیاب انعقاد کے لیے موافق نہیں ہے۔
بیان میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن حالیہ دنوں میں بھارتی قیادت کی طرف سے پاکستان پر خطے میں دہشت گردی پھیلانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جن کی اسلام آباد نے سختی سے تردید کی ہے۔
سارک کانفرنس میں بھارت کے شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو پاکستان نے بدقسمتی قرار دیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا کہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں بھارتی وزارت خارجہ کی ٹوئٹ سے معلوم ہوا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان خطے کے امن کے لیے پرعزم ہے اور دنیا جانتی ہے کہ یہ بھارت ہے جو "پاکستان میں دہشت گردوں کو مالی اعانت فراہم کرتا آرہا ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ سارک کے چند دیگر ممالک نے بھی اسلام آباد کانفرنس میں شرکت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے کے مسائل کا حل باہمی تعاون ہی سے ممکن ہے۔
’’آپ مذاکرات اور تعمیری رابطے ہی کے ذریعے مسائل حل کرتے ہیں یہ نہیں کہ پانی بند کرنے کی دھمکی دیں، اب سارک، تو اب رہ کیا جائے گا۔‘‘
سارک میں خطے کے آٹھ ممالک شامل ہیں لیکن دو بڑے ارکان پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ کشیدگی کے باعث علاقائی تعاون کی یہ تنظیم اپنے فعال کردار میں قابل ذکر طور پر کامیاب نہیں رہی ہے۔
اس علاقائی تنظیم کے سربراہ اجلاس سے قبل حالیہ ہفتوں میں سارک کے وزارئے داخلہ سمیت دیگر کئی سطحوں کے مشاورتی اجلاس پاکستان میں ہو چکے ہیں۔ رواں ہفتے ہی سارک کے تحت خطے سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اجلاس ہوا، جس میں بھارت کے انسداد بدعنوانی کے محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔