رسائی کے لنکس

بھارت، روس سے تیل کی درآمد کم کر کے سعودی عرب سے کیوں بڑھا رہا ہے؟


بھارت کے تجارتی و صنعتی ذرائع کے مطابق بھارت نے جولائی میں روس سے خام تیل کی درآمد میں کمی اور سعو دی عرب سے درآمد میں اضافہ کر دیا ہے۔ میڈیا رپوٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس کی بڑی وجہ روسی تیل کی قیمت میں اضافہ اور سعودی تیل کی قیمت میں کمی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔

بھارت نے جولائی میں رو س سے یومیہ 877,400 بیرل تیل درآمد کیا جو کہ جون کے مقابلے میں 7.3 فی صد کم ہے۔ بھارت سب سے زیادہ تیل عراق سے درآمد کرتا ہے۔ تاہم روس اب بھی بھارت کو تیل برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جب کہ سعودی عرب تیسرا بڑا ملک ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے مئی کے مقابلے میں جون اور جولائی میں آفیشل سیلنگ پرائس (او ایس پی) میں کمی کرنے کی وجہ سے جولائی میں سعودی عرب سے بھارت کی درآمد میں 25.6 فی صد کا اضافہ ہوا اور وہ 824,700 بیرل یومیہ تک پہنچ گیا۔ رپورٹس کے مطابق جولائی میں عراق سے تیل کی درآمد میں 9.3 فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے روس کے خام تیل کی درآمد میں کمی کی اصل وجہ صرف روس کے تیل کی قیمت میں اضافہ اور سعودی عرب کے تیل کی قیمت میں کمی نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں۔

ان کے مطابق بھارت نے روس یوکرین معاملے میں روس کی مذمت نہیں کی جس کی وجہ سے اسے کسی حد تک سفارتی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت پر امریکہ اور مغرب کی جانب سے روس سے تیل کی درآمد بند کرنے کا دباؤ ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ملکوں سے بھارت کے رشتے مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان دونوں اسباب سے بھی بھارت نے روس سے تیل کی درآمد کم کرکے سعودی عرب سے درآمد بڑھا دی ہے۔

یوکرین کی ناراضگی روس سے تیل کی درآمد میں کمی کی وجہ؟

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین بھارت سے ناراض ہے۔ وہاں کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے روس سے تیل کی درآمد جاری رکھنے پر بھار ت پر تنقید کی اور بدھ کے روز ایک ورچوئل نیوز کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ بھارت سپلائی کیے جانے والے روس کے خام تیل کے ہر بیرل میں یوکرین کا لہو بھی شامل ہے۔ بھارت نے تاحال اس پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔


خیال رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھارت نے رعایتی نرخ ہونے کی وجہ سے روس سے زیادہ تیل خریدنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے روس بھارت کو تیل برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا۔

'روس سے زیادہ تیل خریدنے کے باعث سعودی عرب ناراض تھا'

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ روس سے زیادہ تیل خریدنے کی وجہ سے سعودی عرب بھارت سے کچھ ناراض ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ سعودی عرب بھارت کا ایک پرانا حلیف اور دوست ملک ہے۔ اس سے بھارت کے تاریخی رشتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سعودی عرب سے قریبی تعلقات ہیں۔ لہٰذا بھارت اس کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کی جانب سے سعودی تیل کی درآمد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق اس سے قبل بھارت نے سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی اپیل کی تھی لیکن سعودی عرب اس پر راضی نہیں ہواتھا۔ ادھر روس رعایتی نرخ پر تیل دینے لگا جس کی وجہ سے اس کی ڈیمانڈ برھ گئی۔ جب ڈیمانڈ بڑھ گئی تو قیمت بھی بڑھ گئی۔ اس سے قبل وہ بھارت کو 25 سے 30 ڈالر فی بیرل رعایت دے رہا تھا لیکن اب اس نے رعایت کم کر دی۔ جس کی وجہ سے اس کے تیل میں بھارت کی جو دلچسپی تھی وہ کم ہو گئی

مبصرین کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دورے کے موقع پر اس سے تیل کی پیداوار میں اضافے پر زور دیا تھا لیکن اس نے اضافہ نہیں کیا۔ لیکن اب جب کہ بھارت نے سعودی عرب سے اضافی تیل منگوانا شروع کر دیا ہے تو فطری طور پر وہ تیل کی پیداوار بڑھائے گا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ اس معاملے میں عالمی سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔

ان کے مطابق بھارت تیل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ لہٰذا وہ حکمتِ عملی کے تحت تیل برآمد کرنے والے ملکوں میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔یعنی کبھی ایک ملک سے خریدتا ہے تو کبھی کسی دوسرے ملک سے۔ اس کا ایک مقصد قیمت کے تعلق سے سودے بازی کرنا بھی ہے۔ اس کو جہاں سے سستا تیل ملتا ہے وہاں سے خریدتا ہے۔

امریکہ اور یورپ کا دباؤ؟

ان کا کہنا تھا کہ بھارت پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے روس سے تیل کی درآمد کم کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن بھارت کی مجبوری یہ ہے کہ اس کی پوری معیشت تیل اور توانائی پر منحصر ہے۔ اگر تیل کی قیمت میں ایک ڈالر فی بیرل کا بھی اضافہ ہوتا ہے تو اس پر اربوں ڈالر کا بوجھ پڑ جاتا ہے۔ پہلے بھارت 80 اور 85 ڈالر میں تیل خریدتا تھا لیکن چھ ماہ میں یہ قیمت 125 ڈالر ہو گئی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل ترجمان نوپور شرما کے متنازع بیان کے بعد بھارت کو خلیجی ملکوں کے ساتھ سفارتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لہٰذا بھارت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتا جس سے خلیجی ملکوں سے اس کے تعلقات پر کوئی منفی اثر پڑے۔

ایک دوسرے تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپ نے بھارت پر دباؤ ڈالناشروع کیا کہ وہ روس سے تیل نہ خریدے کیونکہ روس پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ لیکن بھارتی تیل کمپنیوں نے اس کے برعکس زیادہ تیل خریدنا شروع کر دیا۔ بھارت جہاں ایک سال قبل روس سے 33 ہزار بیرل یومیہ تیل خریدتا تھا وہیں اس نے رواں سال کے اپریل میں 277,000 بیرل یومیہ تیل درآمد کیا جو مئی میں بڑھ کر 819,000 بیرل یومیہ ہو گیا۔

ان کے مطابق بھارت پر امریکہ کوئی پابندی اس لیے نہیں لگا پا رہا ہے کہ ایک تو مختلف اسباب سے امریکہ اس کی عالمی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتااور دوسری بات یہ ہے کہ بھارت نے روس یوکرین جنگ کے معاملے میں غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا۔

مبصرین کے مطابق توانائی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے میں بھارت کے لیے روس امریکہ سے اچھا دوست ثابت ہوا ہے۔ روس اس کا بہت پرانا حلیف بھی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے سے ہی دونوں کے مابین دوستانہ رشتے ہیں۔ بھارت روس سے بڑی مقدار میں ہتھیار بھی خریدتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس نے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدا اور امریکہ کو بھار ت کو پابندیوں سے مستثنیٰ کرنا پڑا۔ اس لیے یورپ اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود بھارت روس سے اپنے تعلقات کی نوعیت تبدیل نہیں کر سکتا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور روس کے مابین تاریخی رشتے کا امریکہ کو بھی احساس ہے۔ وہ بارہا اس کا حوالہ دے چکا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کو روس کے تعلق سے اپنی پالیسیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے میں طویل وقت درکار ہے۔

واشنگٹن میں بدھ کو ایک نیوز بریفنگ کے دوران جب انہیں یاد دلایا گیا کہ بھارت نے حالیہ دنوں میں روس سے زیادہ تیل خریدا ہے، وہ اس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشق بھی کرنے جا رہا ہے۔ تو پرائس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات اور اقدار کی بنیاد پر آزادانہ فیصلے کرتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ حالانکہ کرونا وبا کے دوران معیشت کو کافی دھچکا لگا تھا لیکن اب وہ ایک بار پھر فروغ پا رہی ہے۔ اس کا احساس بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کو بھی ہے۔ لہٰذا بھارت ایک آزاد خارجہ پالیسی کی طرف گامزن ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG