بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایٹمی جنگ کی دھمکی دے کر خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی پالیسی کا اظہار کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ردعمل دیتے ہوئے بھارتی وزارتِ خارجہ کی فرسٹ آفیسر ودیشا میترا نے کہا کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں نفرت اور تشدد کو ہوا دی۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ شروع ہو گئی تو اس کا اثر پوری دنیا محسوس کرے گی۔
بھارتی مندوب کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے جب ایک عالمی لیڈر نے اس فورم پر خون کی ندیاں، نسلی تعصب، ہتھیار اٹھانے، آخر تک لڑنے جیسے الفاظ استعمال کیے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ 21 ویں صدی اور مہذب معاشروں میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ودیشا میترا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد کیمپ موجود نہ ہونے کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے عالمی مبصرین کو اس ضمن میں دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے اب انہیں اپنے وعدے پر قائم رہنا پڑے گا۔
بھارتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کیا پاکستان اس کی تردید کر سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئی 25 تنظیموں اور 130 دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران امن کا پیغام دیا تاہم پاکستانی وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے ذریعے نفرت کی آگ کو بھڑکایا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لگ بھگ 50 منٹ تک خطاب کیا تھا۔ عمران خان نے ماحولیاتی تبدیلیوں، منی لانڈرنگ، اسلاموفوبیا اور کشمیر کے معاملے پر اظہار خیال کیا تھا۔
پاک بھارت کشیدہ تعلقات پس منظر
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی اتار چڑھاؤ رہا ہے اور کشمیر کے معاملے پر دونوں ملک تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
رواں سال بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی بس پر خود کش حملے میں چالیس سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
بھارت نے ان حملوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ردعمل کے طور پر پاکستان نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ہونے والی فضائی کارروائی کے دوران بھارتی فضائیہ کے دو طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایک طیارہ پاکستان کی حدود میں گرا تھا جس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لینے کے بعد بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، جب کہ بھارت پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے دہشت گرد بھارتی کشمیر میں دراندازی کرتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدامات کے بعد خطے میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ تاہم، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ خطے میں کشیدگی کم ہو رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش بھی کی تھی۔ تاہم، بھارت کا یہ مؤقف ہے کہ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے تحت پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے پابند ہیں۔