رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں لوک سبھا انتخابات؛ بی جے پی حصہ کیوں نہیں لے رہی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • لوک سبھا کے انتخابات میں کشمیر کی تین نشستوں پر بی جے پی الیکشن کے میدان میں موجود نہیں ہے۔
  • بی جے پی جموں کی دو اور لداخ کی ایک نشست سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
  • کشمیر کی تین نشستوں پر دو مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مدِ مقابل ہیں۔
  • حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق بی جے پی نے کشمیر کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اپنے بیانیے سے متصادم نتائج آنے کے خوف کی وجہ سے کیا ہے۔
  • کشمیر میں ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت انتخابات میں حصہ نہیں رہے، رہنما بی جے پی

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی لوک سبھا کے الیکشن میں طویل انتخابی مہم کے دوران ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے دوروں میں کشمیر شامل نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 1996 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کشمیر میں لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔

بھارت کے زیرِ انتظام اس مسلم اکثریتی علاقے میں 'لوک سبھا' کی تین نشستیں ہیں جن پر انتخابات ہونا ہیں اور تینوں نشستوں پر دو مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مدِ مقابل ہیں۔

دونوں مقامی جماعتیں بی جے پی کی سیاسی مخالف ہیں اور دونوں نے حزبِ اختلاف کی قیادت کرنے والی جماعت کانگریس کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا ہے۔

سیاسی مبصرین اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق بی جے پی نے کشمیر کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اپنے بیانیے سے متصادم نتائج آنے کے خوف کی وجہ سے کیا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ 2019 میں ریاست کی نیم خود مختار آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر زیادہ متحد اور پر امن ہو گیا ہے اور وہ جلد کشمیر میں سرمایہ کاری لے کر آئیں گے جس سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

کشمیر کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے سوال اٹھایا ہے کہ بی جے پی انتخابات سے غیر حاضر کیوں ہیں؟

ان کے بقول کشمیر سے متعلق بی جے پی کے دعوؤں اور زمینی حقائق میں مماثلت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ مئی 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو کشمیر کی تینوں نشستوں پر عمر عبد اللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

البتہ کشمیر میں بی جے پی کی قیادت کرنے والے رہنما رویندر رائنا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے کشمیر میں ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن انہوں نے اس حوالے سے مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔

رویندر رائنا کے مطابق ان کی جماعت کشمیر کی تینوں نشستوں پر اُن امیدواروں کی حمایت کرے گی جو امن، خوش حالی، بھائی چارے اور جمہوریت کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

بی جے پی نے اب تک کسی بھی سیاسی جماعت کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو مرکز کے زیرِ انتظام دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جن میں مسلم اکثریتی وادیٴ کشمیر اور ہندو اکثریتی خطے جموں کو ایک علاقہ جب کہ بودھوں کے اکثریتی علاقے لداخ کو دوسرا حصہ قرار دیا گیا تھا۔

اگست 2019 میں جب یہ فیصلہ کیا گیا تو اس وقت ریاست میں انتہائی سخت لاک ڈاؤن بھی لگا دیا گیا تھا جب کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ سمیت کشمیر کے بیشتر رہنماؤں کو کئی ماہ تک حراست میں رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان میں تقسیم خطہ ہے اور دونوں ملک اس پورے خطے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 1947 میں اپنے قیام کے بعد پاکستان اور بھارت کشمیر پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ البتہ سات دہائیوں کے بعد بھی اس تنازع کا تصفیہ نہیں ہو سکا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی کہتے ہیں کہ کئی دہائیوں کی خون ریزی کے بعد 2019 میں ان کے کیے گئے فیصلے کے بعد کشمیر میں حالات معمول پر آئے ہیں جب کہ وزیرِ داخلہ امیت شاہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر میں اب نوجوانوں کے ہاتھوں میں سیکیورٹی فورسز پر برسائے جانے والے پتھروں کی جگہ لیپ ٹاپ آ چکے ہیں۔

نئی دہلی اسلام آباد پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ کشمیر میں شورش میں اس کا ہاتھ ہے جب کہ پاکستان بھارت کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ وہ کشمیر کی اخلاقی حمایت کرتا ہے۔

کشمیر میں 2019 کے مقابلے میں اب پابندیوں میں کافی نرمی آ چکی ہے۔ البتہ خطے میں فوج کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے۔

مقامی آبادی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے سیکیورٹی اداروں پر مسلم آبادی کے ساتھ نا انصافی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG