انجنا پسریجا/ سعدیہ اسد
بھارت میں، اس ماہ کے آغاز پر ایک اہم فیصلے نے، ہم جنس پرستوں یا ایل۔جی۔بی۔ٹی کہلائی جانے والی کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑا دی، جس میں انہیں مرضی سے اپنا ساتھی چننے کا اختیار دیا گیا۔ تاہم ایک قدامت پسند معاشرے میں ہم جنس پرستی کو قبول کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس سپریم کورٹ نے اسکولوں اور کالجوں میں ممنوع سمجھے جانے والے موضوع پر بات کا آغاز کر کے گویا ساکت پانیوں میں پہلا پتھر پھینکا ہے۔
ہم جنس پرستی کے ضمن میں منعقد کی گئیں پر جوش سالانہ ریلیوں سے قطع نظر، بھارت کی یہ کمیونٹی، چھوٹی عمر ہی سے تحفظ کے لیے کوشاں رہی ہے۔
شہید بھگت سنگھ کالج کی طالبہ رابعہ کہتی ہیں کہ اگر ہم طالب علموں کی بات کریں تو انہیں اب بھی پرانے وقتوں ہی کا سامنا ہے، انہیں برے برے ناموں سے پکارا جاتا ہے، تنگ کیا جاتا ہے اور دھمکایا جاتا ہے۔
ہم جنس پرستی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے، ان رویوں کو بدلنے کے لیے ایک نئی تحریک دی ہے۔ نئی دہلی میں اندر پرستھ کالج فار وومن میں جنس اور جنسیت کے موضوعات پر ورکشاپ منعقد کرائی گئی۔
انڈر گریجوایٹ طالبہ لکشیتاجین، اندر پرستھ کالج میں وومن ڈویلپمنٹ سیل کی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو اس موضوع سے آگاہی ہونی چاہیے کیونکہ وہ اپنے بارے میں یا پھر دوسروں کو قبول کرنے میں کچھ تذبذب کا شکار ہیں۔ لہذا میں سمجھتی ہوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ گھروں میں یا اسکولوں میں کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔
وہ کہتی ہیں کہ کالجوں میں اس بارے میں بات کرنا اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ پر اپنی ذات کی پرتیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔
دو گھنٹے دورانیے کی یہ نشست بہت دلچسپ رہی۔ طلبہ و طالبات نے بہت دھیان سے سب سنا اور معاشرے کی اقدار سے بظاہر مطابقت نہ رکھنے والے اس موضوع سے متعلق ذہنوں میں اٹھتے سوالات سب کے سامنے رکھے۔
خواتین کے حقوق کے ایک سرگرم گروپ، کوایر نے اس ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا۔ گروپ سے منسلک رتو پرنا بوراہ کہتی ہیں کہ اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنا بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم شروع ہی سے برابری، مساوات، انصاف اور ہم جنس پرستی سے متعلق ان سے بات کریں گے تو میرے خیال میں بڑے ہو کر انہیں یہ سب سمجھنے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسکولوں اور کالجوں کو اس مقصد کے لیے چنا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ہماری تنظیم کے کئی ارکان کو تعلیمی شعبے میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں محض چند کالجوں میں ہی ہم جنس پرستی کی حمایت کرنے والے گروپ موجود ہیں اس طرح کی ورکشاپس بہت ضروری ہیں۔ اندر پرستھ کالج کی طالبہ کانچی گنگوانی کہتی ہیں کہ جب ہم اس کی بنیاد کو سمجھ جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی ہم اس بارے میں سوچنا، اور اسے قبول کرنا شروع کرتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح سوچنے لگیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اندر بھی جھانکنے کے قابل ہو جائیں۔
خواتین کے تمام کالجوں میں اس طرح کی ورکشاپس کا انعقاد بہت اہم ہے۔ کوایر کے نظریہ گروپ سے تعلق رکھنے والی ریتم بھرا مہتا کہتی ہیں کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی خواہشات، پسند، مرضی اور انتخاب کے بارے میں کھلم کھلا بات کرنا عورت کے لیے بہت مشکل ہے۔
ہم جنس پرستی پر سے غیر قانونی ہونے کا لیبل ہٹے اگرچہ دو دہائیاں بیت چکی ہیں تاہم سوچ کو بدلنے میں وقت تو ضرور لگے گا لیکن اس جانب سفر شروع ہو چکا ہے ۔