بھارت کے قطر میں سفارت کار دیپک متل کی طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی سے ملاقات کو نئی دہلی کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں توجہ اور دلچسپی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ بھارت اور طالبان دونوں نے ایک دوسرے کے حوالے سے مؤقف میں نرمی پیدا کی ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد بھارت طالبان کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ طالبان کی سیاسی قیادت کے ساتھ رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ انھیں بھارت سے رشتے استوار کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا کے ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھارت کو مثبت اشارے دیے ہیں اور ان کی پہل پر ہی دیپک متل نے ملاقات کی ہے۔
’نئی دہلی کو یہ دیکھنا ہے کہ طالبان بھارتی مفادات کو کتنا تحفظ فراہم کرتے ہیں‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد، بھارت افغان تعلقات کی ماہر اور سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر انویش گھوش نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئی افغان حکومت کے ساتھ بھارت کے رشتے کیسے ہوں گے اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ وہاں کی نئی حکومت کا رویہ بھارت کے ساتھ کیسا رہتا ہے۔
ان کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے کابل حکومت کے ساتھ نئی دہلی کا جو رشتہ تھا وہ جمہوریہ افغانستان کے ساتھ تھا۔ لیکن اب اسے امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ رشتہ استوار کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو یہ دیکھنا ہے کہ نئی حکومت بھارتی مفادات کو کتنا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ طالبان نے بھارت کے خدشات اور تشویش کو مثبت انداز میں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ہو گا کہ یقین دہانیوں اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے سفیر کی طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات ایک بہت اہم واقعہ ہے اور یہ غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ وہ غیر رسمی طور پر 2018 سے ہی ان کے رابطے میں تھا جب افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا اور پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نے ماسکو مذاکرات میں شرکت کی تھی۔
بھارت کی حکومت نے باضابطہ طور پر بات چیت کی تصدیق نہیں کی البتہ اس کی تردید بھی نہیں کی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ دیپک متل کی ملاقات سے یہ مفہوم نہیں نکالنا چاہیے کہ بھارت طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غورکر رہا ہے یہ بالکل الگ پہلو ہے۔
حقانی نیٹ ورک اور بھارت
ڈاکٹر انویش گھوش کہتی ہیں کہ طالبان میں کئی دھڑے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک نے کابل کی سیکیورٹی سنبھال رکھی ہے۔ ان کے مطابق یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں حقانی نیٹ ورک بھارت افغانستان رشتوں پر اثر انداز تو نہیں ہو رہا ہے۔ کیوں کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد حقانی نیٹ ورک کو کافی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طالبان میں جو مختلف دھڑے ہیں ان کی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہوتی ہیں۔
داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت طالبان کو ایک دہشت گرد گروپ کہتا رہا ہے اور اب ان سے بات کرنا پڑ رہی ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار سعید نقوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت افغان تعلقات کے سلسلے میں اس پہلو کو سامنے رکھنا ہو گا۔
اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ داخلی سیاست خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ البتہ بھارت کو اپنی سفارتی ضرورتوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ اگر دنیا کے دیگر ملک افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو بھارت کو بھی اسے تسلیم کرنا ہی ہوگا۔
انویش گھوش کہتی ہیں کہ خارجہ پالیسی پر داخلی سیاست کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم طالبان کے دہشت گرد گروہ ہونے کا بیانیہ پرانا ہو چکا ہے۔ حکومت کی سطح پر اس بیانیے کو بدلنے اور اسے اہمیت نہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کے قومی مفادات کا تقاضہ یہ ہے کہ وہاں کی نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کی جائے اور اس کے ساتھ رشتے قائم کیے جائیں۔
رپورٹس کے مطابق وزارتِ خارجہ خود اس بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی لیے اس کے حالیہ بیانات میں طالبان کو دہشت گرد گروہ کہنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔
انویش گھوش کہتی ہیں کہ داخلی سیاست اپنی جگہ پر ہے اور بین الاقوامی تعلقات، سفارتی آداب اور خارجہ پالیسی کے تقاضے اپنی جگہ پر ہیں۔
سعید نقوی بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ داخلی اور بین الاقوامی دونوں پہلو الگ الگ ہیں۔ عالمی تعلقات کا پہلو بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ بھارت کو اپنی سفارتی تنہائی سے باہر نکلنا ہوگا اور طالبان سے رابطہ قائم کرنا ہو گا۔
سلامتی کونسل کی قراردادیں
بھارت کی صدارت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 27 اگست کو جو بیان جاری کیا گیا اس میں طالبان کو دہشت گرد گروپ کہنے کے جملے کو حذف کر دیا گیا تھا۔ یہ بھارت کے تبدیل ہوتے مؤقف کی جانب اشارہ ہے۔
بھارت کی صدارت میں افغانستان کے تعلق سے جو آخری قرارداد منظور کی گئی اس میں طالبان کو افغانستان میں اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اپیل کی گئی کہ افغانستان کی سر زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی دہشت گردوں کو پناہ دی جائے۔
یہ قرارداد فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی اور اس کے حق میں 13 ووٹ ڈالے گئے جب کہ ویٹو پاور والے ملک روس اور چین غیر حاضر رہے۔
خیال رہے کہ بھارت اگست میں ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کا صدر بنا تھا۔ 31 اگست کو اس کی صدارت کی مدت ختم ہو گئی ہے۔
امریکہ اور بھارت کے قومی مفادات علیحدہ
تجزیہ کار سعید نقوی کہتے ہیں کہ بھارت نے امریکہ سے بہت گہرے تعلقات قائم کر لیے تھے اور اب امریکہ کو وہاں سے نکلنا پڑا ہے اور طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا ہے جن کے خلاف یہاں خوب تشہیر کی گئی تھی۔ لہٰذا اس صورتِ حال کو عوام کو سمجھانے میں حکومت کو دشواری پیش آ رہی ہے۔
بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ جب امریکہ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی اور ان سے معاہدہ کیا تو بھارت کو بات چیت کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر انویش گھوش کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکہ کا پڑوسی نہیں بھارت کا پڑوسی ہے۔ امریکہ نے جو کیا وہ اس نے اپنے قومی مفادات کے پیش نظر کیا۔ لیکن بھارت کا معاملہ دوسرا ہے۔ بھارت امریکہ کے فیصلے کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کرے گا۔
ان کے مطابق بھارت کو اپنے قومی مفادات کو دیکھنا ہے اور اس کے تحت ہی فیصلہ کرنا ہے۔