|
بنگلہ دیش میں نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد بھارتی میڈیا میں بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے ممکنہ رشتوں پر کافی گفتگو ہو رہی ہے۔
بیش تر مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور ان کے بھارت میں قیام کے بعد وہاں کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ تاہم بھارت کو بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی بنگلہ دیش کے ساتھ کام کرنے کے بھارت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں محمد یونس کو نیک خواہشات پیش کیں اور اسی کے ساتھ ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہاں حالات جلد معمول پر لوٹ آئیں گے۔ ان کے بقول بھارت دونوں ملکوں کے عوام کی امن و سلامتی اور ترقی کی مشترکہ خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے عہد کا پابند ہے۔
بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی سخت
ادھر مودی حکومت نے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر نگرانی کرنے کے لیے جمعے کو وزیرِ داخلہ امت شاہ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل کی۔
امت شاہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں بتایا کہ یہ کمیٹی بھارتی شہریوں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنگلہ دیش میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ روابط قائم کرے گی۔
رپورٹس کے مطابق شیخ حسینہ واجد اب بھی بھارت میں ہیں۔ انھوں نے اپنے مستقبل کے منصوبے پر تاحال کوئی اظہارِ خیال نہیں کیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایسی کوئی عجلت نہیں ہے کہ وہ شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ دینے کے لیے کہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کو ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم ان کے کسی مناسب فیصلے کے منتظر ہیں۔ صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے۔ ان کے مستقبل کے پلان پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ لیمی کے ساتھ جمعرات کو بنگلہ دیش کی صورت حال پر بذریعہ فون گفتگو کی۔ انھوں نے ایک پوسٹ میں اس کی اطلاع دی۔ شیخ حسینہ کے برطانیہ میں پناہ لینے کے ابتدائی منصوبے کے تناظر میں اس گفتگو کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔
تاہم انھوں نے اپنی پوسٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ انھوں نے شیخ حسینہ کے مستقبل کے پلان کے بارے میں اپنے برطانوی ہم منصب سے کوئی بات کی ہے۔
'حالات کسی جانب بھی کروٹ لے سکتے ہیں'
تجزیہ کاروں کی جانب سے بنگلہ دیش کے حالات اور محمد یونس کے زیرِ قیادت قائم ہونے والی عبوری حکومت کی آئندہ کی پالیسیوں پر قیاس آرائی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی بھروسے مند دوست شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں کے حالات کوئی بھی کروٹ لے سکتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار آنند کے سہائے کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جو بھی حکومت ہو اس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور مل کر کام کرنے میں بھارت کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک اقتصادی طور پر ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ بھارت بنگلہ دیش کا خیر خواہ ہے۔ دونوں میں تاریخی رشتے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی اچھے روابط ہیں۔ ان روابط کو اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم آگے جو حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق بھی اسے کام کرنا ہو گا۔
اقوامِ متحدہ میں بھارت کے سابق مستقل نمائندے اور بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار اور مالدیپ ڈویژن کے سابق سربراہ ٹی ایس تری مورتی نے بھارت کے ایک اخبار ’دی ہندو‘ میں اپنے مضمون میں بنگلہ دیش کی تبدیل شدہ صورتِ حال میں بھارت کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ محمد یونس جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی کے حامی ہیں۔ لیکن مختلف الخیال لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت میں نہ تو محمد یونس کے ہاتھ مضبوط ہو پائیں گے اور نہ ہی فوج کے۔
ان کے مطابق اب بنگلہ دیش میں موجود بھارت مخالف طاقتوں کو تقویت حاصل ہو گی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ فوج ان طاقتوں کو کیسے کنٹرول کرتی ہے۔ وہ حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ بھارت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ محمد یونس اور فوج کے ساتھ مل کر کام کرے۔
آنند کے سہائے بھی بھارت مخالف قوتوں کے مضبوط ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی بھارت مخالف ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کو مزید تقویت حاصل ہو گی جو بھارت کے لیے یقیناً تشویش کا سبب ہو گا۔
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں دوسری طاقتیں بھی ہیں جو بھارت مخالف نہیں ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ بھارت مخالف طاقتوں کو مضبوطی حاصل کرنے سے روک پاتی ہیں یا نہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ بھارت نے شیخ حسینہ کو ایک بھروسے مند اتحادی کے طور پر دیکھا تھا۔ ان کے 15 سالہ دورِ حکومت میں بھارت مخالف طاقتیں کمزور پڑ گئی تھیں۔
انھوں نے نہ صرف بنگلہ دیش میں موجود بھارت مخالف عناصر کو کنٹرول کیا تھا بلکہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں سرگرم شورش پسندوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی تھی۔
شیخ حسینہ کو پناہ دینے کا معاملہ
بعض تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اب جب کہ شیخ حسینہ بھارت میں قیام کیے ہوئے ہیں، کیا وہاں کی مخالف طاقتیں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام سے نئی حکومت کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گی اور اس کی ایک وجہ بھارت میں شیخ حسینہ کا قیام بھی ہو سکتا ہے؟
آنند کے سہائے نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ حسینہ مخالف طاقتیں تو چاہیں گی کہ ان کو کہیں بھی پناہ نہ ملے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت نے ان کو مدعو نہیں کیا ہے۔ وہ اپنے ملک کے حالات سے مجبور ہو کر آئی ہیں۔ لہٰذا بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ جب تک یہاں رہنا چاہیں ان کو رہنے کی اجازت دے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے شیخ حسینہ کو بھارت میں بطور مہمان رکھے جانے پر ناراضی ظاہر کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اس کے دشمن کی مدد کی جائے گی تو باہمی تعاون کا احترام مشکل ہو جائے گا۔
بھارت کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے بی این پی کے سینئر رہنما گائیشور رائے نے کہا کہ ان کی پارٹی بنگلہ دیش اور بھارت میں باہمی تعاون میں یقین رکھتی ہے۔ بھارتی حکومت کو یہ بات سمجھنا ہو گی اور اسی کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔
آنند کے سہائے کہتے ہیں کہ بھارت کو اس بیان کو اہمیت نہیں دینا چاہیے کہ بی این کا کوئی رہنما کیا کہتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت کیا بیان دیتی ہے اور کیا مؤقف اختیار کرتی ہے۔
نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹو ڈے‘ کے لیے تجزیہ کار پردیپ ساگر لکھتے ہیں کہ نئی دہلی کو اس کی فکر ہے کہ عبوری حکومت بھارت کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو آگے بڑھاتی ہے یا نہیں۔ اگر مروجہ پروٹوکول سے الگ پالیسی اپنائی گئی تو بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
ان کے مطابق بھارت نئی حکومت اور وہاں کی فوج کے ساتھ کام کرنے کا عزم تو ظاہر کر رہا ہے لیکن جب تک شیخ حسینہ بھارت میں ہیں اس کے لیے حالات آسان نہیں ہوں گے۔
بھارت کی سابق سیکریٹری خارجہ نروپما رواؤ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کو بہت محتاط ہو کر ردعمل کا اظہار کرنا اور پالیسی قدم اٹھانا چاہیے۔ اسے دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ اسے اپنے طویل مدتی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ وہ کسی بھی غلط قدم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
فورم