بھارت کی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاحوں پر عائد پابندی 10 اکتوبر سے ہٹانے کا اعلان کر دیا ہے۔
مرکزی حکومت کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق جمعرات سے سیاح جموں و کشمیر کا سفر کر سکیں گے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خوبصورتی کے باعث ہر سال ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑ، گلیشئیرز اور سرینگر کی 'ڈل' جھیل خاص طور پر توجہ کا مرکز رہتی ہے۔
بھارتی حکومت نے اتوار کو نقل و حمل پر عائد پابندیاں ہٹاتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے 15 کارکنوں کو نظر بند دو رہنماؤں سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی تھی۔
بھارتی حکومت کے اعلان کے باوجود برطانیہ اور دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا سفر نہ کرنے کا مشورہ برقرار رکھا ہے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست سے قبل جموں و کشمیر سے تمام سیاحوں، یاتریوں اور غیر کشمیری طلبا کو واپس لوٹنے کا حکم دیا تھا۔
پانچ اگست کو لوک سبھا میں ایک بل کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا گیا تھا، جس سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت بھی ختم ہو گئی۔
اس کے بعد بھارت کی حکومت نے نقص امن کے خدشے کے پیش نظر جموں و کشمیر میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب کہ انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اقدامات کو بعض حلقے سراہتے ہیں۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھے گا۔
پیر کو پلوامہ میں سکیورٹی فورسز سے جھڑپ کے دوران ایک مزاحمت کار ہلاک ہو گیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کا رابطہ مبینہ طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروپ لشکر طیبہ سے ہے۔
حکام کے مطابق پانچ اگست کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے مزاحمت کاروں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔