بھارت کے وزیر صحت من سُکھ منداویہ نے جمعہ کے روز کہا کہ بھارت اپنی دوائیوں کی پیداوار کو منظم کرنے کے لیے 79.6 ملین ڈالر خرچ کرے گا۔
عالمی ادارہء صحت نے پچھلے مہینے ،بچوں کو آلودہ ادویات سے محفوظ رکھنے کے لیےبھارت سے فوری اور مربوط کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا دو ممالک میں 79 بچوں کی ہلاکت کا سبب بھارت میں بھارتی کمپنیوں کے تیار کردہ کھانسی کے شربت کا استعمال تھا۔
افریقہ اور ایشیائی ملکوں میں 300 سے زیادہ بچے کھانسی کا آلودہ شربت پینے سےموت کے منہ میں چلے گئے ، جس پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ، ڈبلیو ایچ او، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور غیر ملکی ریگولیٹری حکام نے اس بارے تحقیقات شروع کیں کہ کھانسی کے شربت میں یہ آلودگی کیسے ہوئی۔
بھارت کو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر دوائیں فراہم کرنے والا ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دواسازی کی برآمدات پچھلی دہائی کے دوران دگنی سے زیادہ ہو کر 2021-22 میں 24.5 ارب ڈالر ہو گئی تھیں لیکن گزشتہ سال گیمبیا میں کم از کم 70 بچوں اور ازبکستان میں 19 بچوں کی ہلاکت نے اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
جمعہ کو وزیر صحت منسکھ منداویہ کی جانب سے پیش کیے جانےوالے سرکاری اعداد و شمار پیش سے ظاہر ہوا کہ سن 2021 ۔22 میں ریاستوں اور علاقوں میں تقریبًًا 89,000 دواؤں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 2,500 سے زیادہ معیار پر پوری نہیں اتریں اور 380 کے قریب ، جعلی یا ملاوٹ شدہ تھیں۔
منداویہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دواؤں کا تجزیہ کرنے والی نئی لیبارٹریوں کے قیام اور موجودہ کو جدید بنانے کے لیے ان کی وزارت کو فنڈز مختص کیے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا کہ ان کی حکومت نے ملک میں ادویات کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ریگولیٹری اقدامات کیے ہیں۔
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ فنڈز کب فراہم کیے جائیں گے اور ان کا استعمال کیسے کیا جائے گا۔
رائٹرز کی طرف سے وضاحت کی درخواست کا وزارت صحت نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
جن کمپنیوں کے شربت پینے سے بچوں کی اموات ہوئی تھیں انہوں نے تحقیقات کے دوران ،یا تو اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی مصنوعات آلودہ تھیں یا انہوں نےکچھ کہنے کرنے سے انکار کیا۔
بھارتی حکومت کے انسپکٹرز نے گیمبیا میں، اس شربت کے تجزیوں میں کوئی آلودگی نہیں پائی جس کے پینے سے بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔
خبر کا کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔