بھارت کی حکومت کے ذرائع نے کہا ہے بھارت، جاپان اور امریکہ ہر سال مشترکہ بحری مشقوں کا انعقاد کریں گے۔ تینوں ممالک نے آٹھ سال میں پہلی مرتبہ ہونے والی یہ مشقیں خلیج بنگال میں شروع کر دی ہیں اور ان سے چین میں تشویش پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
آخری مرتبہ نئی دہلی نے 2007 میں اپنے پانیوں میں کثیر القومی جنگی مشقیں منعقد کی تھیں جس سے چین میں تشویش پیدا ہوئی تھی، جہاں کچھ لوگ اسے امریکی قیادت میں نیٹو طرز کا سکیورٹی اتحاد سمجھ رہے تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے برسراقتدار آنے کے بعد مزید فعال سکیورٹی پالیسی کا اشارہ دیا ہے جس میں امریکہ اور جاپان کے ساتھ مضبوط سٹریٹجک تعلقات اور چین کے ساتھ سرحدی تنازع کو قابو کرنا شامل ہیں۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والی مشقوں کے لیے امریکہ کی طرف سے طیارہ بردار جہاز ’یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ‘ اور جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بھی شامل ہیں۔ بھارتی بحریہ کے مطابق ان جنگی مشقوں میں ہر قسم کے داؤ پیچ کی مشق کی جائے گی۔
بھارتی بحریہ کے ترجمان کیپٹن ڈی کے شرما نے کہا کہ ’’ان مشقوں میں سب کچھ شامل ہے۔ یہ ایک آپریشن سے شروع ہو کر دیگر آپریشنز تک جائیں گی، جن میں انسداد بحری قذاقی، جہازوں پر چڑھنا، تلاشی لینا اور قبضہ کرنا اور انسانی امداد اور آفات میں امداد کے آپریشنز شامل ہیں۔‘‘
مالابار جنگی مشقیں ہر سال منعقد کرانے کے اعلان سے چند دن قبل ہی پینٹا گان کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کے مصنوعی جزائر کے قریب جنگی جہاز روانہ کرنے پر غور کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ’دی فنانشل ٹائمز‘ اخبار نے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران امریکی جہاز 12 بحری میل کے فاصلے سے ان علاقوں کا سفر کریں گے جن پر چین کا دعویٰ ہے۔
بھارت اب تک بحیرہ جنوبی چین کے تنازع سے علیحدہ رہا ہے مگر اس نے علاقے میں بحری جہازوں کی آزادانہ نقل و حمل کی حمایت کی ہے۔
ٹوکیو حالیہ برسوں میں بحرالکاہل میں ہونے والی بحری مشقوں میں وقتاً فوقتاً شریک رہا ہے مگر بھارتی دفاعی ذرائع کے مطابق اب تین ملکوں نے ان مشقوں کو باضابطہ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔