رسائی کے لنکس

بھارتی آرمی چیف کا بیان؛ کیا کشمیر میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟


  • بھارتی آرمی چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سال میں جو دہشت گرد مارے گئے ان میں 60 فی صد پاکستانی تھے۔
  • سینئر تجزیہ کار ایر مارشل (ر) کپل کاک کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں اتنی کمی نہیں آئی ہے جتنی کمی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
  • تجزیہ کار کپل کاک آرمی چیف کے دہشت گردوں کی شہریت کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
  • وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں بھارتی کشمیر میں 60 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

نئی دہلی -- بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپیندر دویدی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جو دہشت گرد ہلاک کیے گئے ان میں سے 60 فی صد پاکستانی تھے۔ گزشتہ سال ہلاک کیے جانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد 73 ہے۔

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آج کشمیر وادی اور جموں کے علاقے میں جو عسکریت پسند ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ان میں 80 فی صد یا اس سے زیادہ پاکستانی ہیں۔

انھوں نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب بھی دہشت گردوں کو بھیج رہا ہے اور ان کی دراندازی کو روکنے کے لیے 2024 میں 15 ہزار اضافی فوجی اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔

تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے تاحال اس سلسلے میں کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

انھوں نے جموں و کشمیر میں لا اینڈ آرڈر کے بارے میں کہا کہ صورتِ حال مکمل طور پر قابو میں ہے۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فروری 2021 سے سیز فائر نافذ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور بین الاقوامی سرحدی سیکٹر سمیت دراندازی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈرونز کے ذریعے ہتھیار جیسی چیزیں اور منشیات اسمگل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے 15 جنوری کو آرمی ڈے کے موقع پر نئی دہلی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز پاکستان میں ہے۔ اگر دہشت گردوں کو اس کی حمایت جاری رہی تو وہاں دہشت گردوں کی دراندازی جاری رہے گی۔

ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں جنوبی کشمیر اور ڈوڈہ کشتواڑ بیلٹ میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن انھوں نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ حالات قابو میں ہیں۔

ان کے مطابق اس بار امر ناتھ یاترا پر پانچ لاکھ سے زیادہ یاتری آئے۔ اس کے علاوہ وہاں انتخابات کا پر امن انعقاد بھی ہوا جو مثبت تبدیلی کا اشارہ ہے۔ دہشت گردی کی جگہ پر سیاحت بتدریج جگہ بنا رہی ہے۔

کیا فوجی سربراہ کے دعوؤں میں صداقت ہے؟

سینئر تجزیہ کار ایر مارشل (ر) کپل کاک کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں اتنی کمی نہیں آئی ہے جتنی کمی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کا کہنا ہے کہ پتھربازی کم ہو گئی ہے۔ لیکن جب پتھر بازی ہو ہی نہیں رہی ہے تو کم تو ہو ہی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ سرحد پار کی دہشت گردی میں کمی کی بات کرتے ہیں۔ البتہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سرحد پار سے دہشت گردی بند نہیں ہوئی ہے۔ اس کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں کے دہشت گردوں کا کشمیر کے مقامی لوگوں سے رابطہ ہے۔

ان کے مطابق اب دہشت گردی کا طریقہ بدل گیا ہے۔ اب ملازمت پیشہ یا دکان دار یا اپنا کاروبار کرنے والے بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔

ان کے مطابق ان لوگوں کو خفیہ طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے اور جب کبھی کسی فوجی اہل کار کو نشانہ بنانا ہوتا ہے تو ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی سرگرمی انجام دے کر اپنے کام پر لوٹ آتے ہیں۔

لیکن جنرل اوپیندر دویدی کا کہنا ہے کہ 2024 میں صرف چار مقامی افراد نے دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے مطابق مقامی شہری دہشت گردی کے بجائے امن چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ نے انٹیلی جینس ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ سال ایل او سی اور انٹرنیشنل بارڈر پار کرتے ہوئے 17 دہشت گرد مارے گئے۔ جب کہ دور دراز کے علاقوں میں انکاونٹرز میں 26 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں جنوبی کشمیر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جموں خطہ یعنی جموں، اودھم پور، کٹھوعہ، ڈوڈہ اور راجوری میں 42 غیر مقامی دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

کیا واقعی عسکریت پسندوں کی اکثریت پاکستانی ہے؟

تجزیہ کار کپل کاک آرمی چیف کے دہشت گردوں کی شہریت کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ ان کی شناخت نہیں کی جا سکتی کہ وہ بھارتی ہیں یا پاکستانی۔

وہ اس دعوے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں صورتِ حال معمول کے مطابق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور نارملسی لوٹ رہی ہے اور دوسری طرف دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے 15 ہزار اضافی فوجی اہل کار تعینات کیے جاتے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 60 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ اگر پہلے کے اعداد و شمار پر غور کریں تو 2013 میں 170 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ البتہ 2023 کے آخر میں صورت حال قدرے بہتر ہوئی تھی۔

اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے دیپتی مان تیواری کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ دو برس میں آرمی کو سنگین چیلنجز کا سامنا رہا۔ اس کے 50 اہل کار دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہوئے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جموں ڈویژن میں دہشت گردی شروع ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ لداخ میں فورسز کی تعیناتی کے لیے جموں خطے سے فوجی اہلکاروں کو نکالنے کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہو گئی اور سرحد پار کی دراندازی بڑھ گئی۔

تاہم جموں خطے میں مزید فوجی اہلکاروں کی تعیناتی اور انسداد دہشت گردی کے گرڈ کے دوبارہ کام کرنے کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں کچھ کامیابی ملی ہے۔

واضح رہے کہ وزارتِ داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے گزشتہ سال نومبر میں داخلی امور سے متعلق پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ پانچ برس میں دہشت گردی سے متعلق وارداتوں میں 70 فی صد کی کمی آئی ہے۔ لیکن اس سال سویلین کی ہلاکتیں تشویش کا باعث ہیں۔

داخلہ سیکریٹری گووند موہن کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں یونین ٹیری ٹیری میں سویلین ہلاکتوں میں کمی آئی تھی لیکن گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ان کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہے۔

ان کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ساتھ انکاؤنٹر اور مختلف آپریشنوں میں دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں بھی کافی کمی آئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG