ان دنوں بھارتی میڈیا میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی فنکاروں کے بھارتی فلموں میں کام کرنے کے معاملے پر خبریں گرم ہیں۔
ان خبروں کا بغور جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی فنکاروں نے بھارتی عوام میں اپنے کام، اپنے فن سے جو جگہ بنائی تھی وہ آج بھی انہی کے لئے خالی ہے۔
سیاسی و مذہبی یا دینی جماعتیں کچھ بھی کہیں، ان فنکاروں نے بھارت کے ٹاپ کلاس اسٹارز کے دل ضرور فتح کرلئے ہیں۔
یقین نہ آئے تو رنبیر کپور، رشی کپور، نیتو سنگھ، رتنا پاٹھک، مہیش بھٹ، پوجا بھٹ، ہیما مالنی، شبانہ اعظمی اور سب سے بڑھ کر سری دیوی کی باتیں سنئے۔ وہ تو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستانی فنکاروں کو یاد کرے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور رو پڑیں۔
بات ہے سری دیوی کی 300ویں فلم ’مام‘ کی جو گزشتہ ہفتے ہی ریلیز ہوئی ہے۔ فلم میں پاکستانی ایکٹر عدنان صدیقی اور سجل علی نے سری دیوی کے ساتھ کام کیا ہے ۔
اپنے ویڈیو پیغام میں سری دیوی نے عدنان صدیقی کو ’میرا بچہ‘ کہہ کر مخاطب کیا، اسلام علیکم کہا اور مزید بولیں: ’’عدنان جی، سجل علی۔۔میرا بچہ۔۔مجھے آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔ میں اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پارہی ہوں۔ ’مام‘ میں کیا گیا آپ کا کام لاجواب ہے۔ آپ کے بغیر اس فلم کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘‘ اس پیغام میں وہ نہایت سنجیدہ اور اداس نظر آئیں۔
رنبیر کپور جنہوں نے کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ میں فواد خان کے ساتھ کام کیا تھا، ایک انٹرویو کے دوران فواد خان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’فواد ان فنکاروں میں سے ایک ہیں جن کا میں فین ہوں، جن کا میں دل و جان سے مداح ہوں۔ میرا اور ان کا ’یارانہ‘ ہے۔ میری خواہش ہے کہ فواد خان کے ساتھ ایک اور فلم میں کام کروں، ایسا کام جسے لوگ برسوں یاد رکھیں۔‘‘
رنبیر کپور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ سیاسی فضاء کے برے اثرات فواد خان کو سہنا پڑ رہے ہیں۔‘‘
رنبیر کپور نے دوران گفتگو یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’ ان کے والدین رشی کپور اور نیتو سنگھ بھی فواد خان کے بہت بڑے فین ہیں۔ بقول اُن کے، ’’میرے والد رشی کپور نے سن 2016میں ریلیز ہونے والی فلم ’کپور اینڈ سنز‘ میں فواد خان کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ تبھی سے فواد کے مداح ہیں جبکہ والدہ نیتو سنگھ فواد خان کے پاکستانی ڈرامے دیکھتی اورپسند کرتی رہی ہیں خاص کران کی میگا ہٹ ڈرامہ سیریل ’ہم سفر‘ جو انہیں بہت پسند ہے۔‘‘
نصیر الدین شاہ کی شریک حیات، بھارتی ٹی وی اور فلموں کا جانا پہچانا نام رتنا پاٹھک شاہ جنہوں نے فواد خان کے ساتھ فلم ’خوب صورت‘ اور’کپور اینڈ سنز‘ میں ان کی ماں کا کردار اداکیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ مزید فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تو وہ ضرور کریں گی، ان کے لئے اس میں کوئی پریشانی یا فکر کی بات نہیں۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’’آرٹ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہم ایک دوسرے سے تعلق کو جوڑ ے رکھ سکتے ہیں۔ اس سے فلموں کو نئی تحریریں، نئی کہانیاں ملیں گے۔ ہمیں دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے۔فن کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
اپنے زمانے کی ’ڈریم گرل‘ ہیما مالنی کا کہنا ہے کہ ’’بطور آرٹسٹ ہمیں پاکستانی فنکاروں کے کام کی تعریف کرنی چاہئے۔‘‘
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فواد خان، مائرہ خان، عدنان، سجل، غلام علی، عاطف اسلم یا راحت فتح علی خان جیسے درجنوں آرٹسٹس اپنے کام، ہنر اور فن سے سینکڑوں بھارتی فلموں کی شان بڑھا چکے ہیں۔ دونوں ممالک کی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے ان کی خدمات کو یاد رکھا جانا چاہئے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی فضا نے ان کی محنت کو کبھی پنپنے نہیں دیا۔
گزشتہ سال ہونے والے اڑی سیکٹرمیں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس قدر کشیدہ ہوگئے تھے کہ کچھ بھارتی سیاسی و دینی جماعتوں نے بالی ووڈ انڈسٹری پر پاکستانی فنکاروں کو کام نہ دیئے جانے پر غیر معمولی طور پر زور دیا۔
دباؤ کے نتیجے میں پاکستانی فنکاروں کے بھارت فلموں میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہاں تک کہ کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ کی ریلیز بھی کھٹائی میں پڑتی نظر آنے لگی تاہم کرن جوہر نے سیاسی جماعتوں کی منت سماجت کرکے انہیں اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ فلم کو ریلیز ہونے دیں تاہم بدلے میں انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کسی پاکستانی فنکار کو اپنی فلموں میں کام نہیں دیں گے۔
اس پابندی کے باوجود پاکستانی فنکاروں کے کام کا ’جادو ئی اثر‘ کم نہیں ہوا۔ وہاں آج بھی پاکستانی ڈراموں کو دیکھا اور پسند کیا جا رہا ہے۔ انہی ڈراموں کی بدولت عوام کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ سپراسٹارز کے دل پاکستانی فنکاروں کے لئے دھڑک رہے ہیں۔
حال ہی میں غیر معمولی حالات میں موت کا شکار ہونے والے فنکار آنجہانی اوم پوری بھی ان فنکاروں میں سرفہرست رہیں گے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستانی فنکاروں کو سپورٹ کیا بلکہ وہ تواتر سے پاکستان آنے جانے کے علاوہ پاکستانی فلم ’ایکٹران لا‘ میں کام کرچکے تھے۔
کم و بیش یہی صورتحال نصیر الدین شاہ کے ساتھ رہی۔ انہوں نے بھی ہمیشہ پاکستان فلم انڈسٹری کو آگے لانے میں مدد دی بلکہ ’خدا کے لئے‘ جیسی کامیاب اور میگا ہٹ پاکستانی فلم بھی دی۔ لالی ووڈ اور سنیما انڈسٹری کی بحالی میں اس فلم نے وہ کردار اداکیا جس کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ نصیر الدین شاہ کے بغیر اس فلم کو شاید وہ کامیابی نہ ملتی جو ان کے کام سے اس فلم کو ملی۔