اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بالی وڈ فلمیں پاکستان میں پسند کی جاتی ہیں اور شاہ رخ خان اور عامر خان کے مداح اپنے پسندیدہ ہیروز کو دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن، تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
پرستاروں کا ایک بڑا حلقہ رکھنے کے باوجود پاکستان میں بھارتی فلمیں اکثر پابندی کی زد میں آجاتی ہیں، جس کی بنیادی وجہ باہمی تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ ہیں۔
برطانوی اخبار ’ٹیلی گراف‘ نے پاکستانی سینما انڈسٹری کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کبھی مقامی فلمی صنعت کو بچانے کے نام پر تو کبھی بھارت میں پاکستانی آرٹسٹوں پر عائد پابندی کے جواب میں لگائی جاتی ہے۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ بالی وڈ فلموں کی پاکستان میں ریلیز اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف پاکستانی فلم انڈسٹری کے لئے بھی بے حد ضروری ہے۔
اپنے عروج کے دور میں، لاہور کی فلمی صنعت کو وہ مقام حاصل تھا جو آج کل کے دور میں بالی وڈ کا ہے۔سن60 کے عشرے میں لاہور میں سینکڑوں پاکستانی فلمیں مقامی طور پر بنتی تھیں۔ لیکن، ویڈیو کیسٹ ریکارڈر یا وی سی آر کی آمد، پائیرسی اور بھارتی فلموں کی غیر قانونی اسمگلنگ نے نقشہ ہی بدل دیا۔ پاکستان میں سنگل اسکرین سینما تیزی سے بند ہونے لگے یا پھر انہیں پارکنگ گیراج اور شاپنگ مالز میں تبدیل کردیا گیا۔
نوے کا عشرہ شروع ہوا تو بھارت کی معیشت نے ترقی کی تاہم پاکستان کی رفتار مدھم رہی اور اس کا منفی اثر فلم انڈسٹری پر بھی پڑا اور مقامی فلم انڈسٹری پر تقریباً تالا پڑ گیا اور فلمیں بننا بند ہوگئیں۔
دو ہزار پانچ تک لاہور میں بمشکل 20 فلمیں سالانہ بنتی تھیں جن کی تعداد گھٹتے گھٹتے2010 میں صرف نورہ گئی۔ اسے لاہور کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور اس سارے عرصے میں بالی وڈ کی فلمیں پاکستانی سینما گھروں میں سپرہٹ ہونے لگیں۔
بالی وڈ فلموں کی نمائش پرپابندی سن ساٹھ کے عشرے سے 2005تک برقرار رہی لیکن 2012 سے صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کے تناؤ کا شکار تعلقات کے باوجود حکومت پاکستان نے بھارتی فلموں پر پابندی لگانے کے بجائے ٹکٹوں پر تفریحی ٹیکس لگایا جس سے حکومت کو بھاری آمدنی ہوئی۔
پاکستانی فلمی صنعت میں بہتری2013سے آنا شروع ہوئی۔ پاکستانی انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ ’ہپ ان پاکستان‘ نے2016میں ایک سروے کیا جس میں پاکستان کے سرفہرست اداکاروں سے کچھ سوال پوچھے گئے۔اس سروے کا دلچسپ نتیجہ سامنے آیا۔
مثلاً یہ کہ پاکستانی فلم انڈسٹری، بحالی کے باوجود اس قابل نہیں کہ اپنے قدموں پر خود کھڑی ہو سکے۔
ملک میں اس وقت 90 فلم اسکرین موجود ہیں اور سال میں 15 سے بھی کم فلمیں بن رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر ان سینما گھروں کو اگر ایک بار پھر شاپنگ مال بننے سے بچانا ہے تو لالی وڈ کو غیر ملکی فلمیں امپورٹ کرنا پڑیں گی اور زبان و ثقافت تقریباً تقریباً ایک جیسی ہونے کی وجہ سے بالی وڈ ہی بہترین چوائس ہے۔
اکتوبر 2016 میں’ اے دل ہے مشکل‘ تنازعہ کے بعد ایک بار پھر بے یقینی کی فضا اس وقت پیدا ہوئی جب بھارت میں متعدد ڈسٹری بیوٹرز نے فلم کو ریلیز کرنے سے محض اس لئے انکار کر دیا کہ پاکستانی اسٹار فواد خان فلم کا حصہ تھے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ مستقبل میں جس فلم میں پاکستانی اداکار ہوں گے وہ ریلیز نہیں کی جائے گی۔
پاکستان نے اس اقدام کا جواب یوں دیا کہ بھارتی فلموں پرپابندی عائد کر دی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے نامور ستاروں سے بات کی گئی تو یہی موقف سامنے آیا کہ وہ اس پابندی کے حق میں نہیں۔
اداکاروں سے لے کر رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تک تقریبا ًسب ہی نے ہم آواز ہو کر پابندی کی مخالفت کی۔ ڈائریکٹر احسن رحیم کا کہنا تھا کہ بھارتی فلمیں لوگوں کو سینما گھروں تک لائی ہیں۔ ان پر پابندی سے بزنس پر برا اثر پڑے گا۔
بھارتی فلموں پر پابندی کے باعث دسمبر2016 میں سینما کے بزنس میں 60 فیصد کمی ہوئی۔ پاکستانی فلموں کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی جیسی بالی وڈ فلموں کو ملتی ہے اورسنے پلیکس میں کام کرنے والے متعدد افراد کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔
بالاخر، حکومت نے 18 دسمبر 2016 کو پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے ایک بات یہ بھی واضح ہوئی کہ بزنس کے حوالے سے پاکستانی فلمی صنعت کا فی الحال انحصار بالی وڈ کی فلموں پرہے۔
پاکستان کے بہت سے اداکار اور سنگر بالی وڈ کا حصہ رہے ہیں ۔’اے دل ہے مشکل‘، ’خوبصورت‘ اور ’کپور اینڈ سنز‘ کی کاسٹ میں شامل فواد خان ہوں یا ’کری ایچر‘ اور ’جانثار‘ میں کام کرنے والے عمران عباس۔
’ڈئیر زندگی‘ اور ’میرے برادر کی دلہن‘ میں اہم کردار ادا کرنے والے سنگر اور اداکار علی ظفر سے لے کر مقبول بینڈ ’جنون‘ تک سب ہی نے بالی وڈ میں کام کرکے خود کو منوایا اور داد سمیٹی ہے۔