بھارت میں متنازع شہریت بل کی منظوری کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم جمعرات کو دارالحکومت نئی دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کردہ شہریت بل کے خلاف احتجاج تھمنے میں نہیں آ رہا۔ شمال مشرقی بھارت کے علاوہ اب یہ احتجاج دارالحکومت دہلی، کولکتہ، ممبئی، حیدرآباد اور گجرات سمیت دیگر شہروں تک بھی پھیل گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اب تک پرتشدد مظاہروں میں چھ افراد ہلاک اور سیکڑوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکام نے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی معطل کر رکھے ہیں۔
منتظمین نے احتجاج کو مزید منظم کرنے کے لیے جمعرات کو بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ کئی روز سے جاری یہ مظاہرے پرتشدد رنگ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اتوار کو مظاہرین پر پولیس تشدد کے بعد مظاہروں میں شدت آ رہی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں حالیہ مظاہرے متنازع شہریت بل کی منظوری کے خلاف ہو رہے ہیں۔ جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں 'عدم تحفظ' کا شکار چھ مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
وائس آف امریکہ کے نئی دہلی میں نمائندے سہیل انجم کے مطابق، دہلی میں لال قلعہ سے شہیدی پارک تک اور منڈی ہاؤس سے جنتر منتر تک دو احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی۔ لال قلعہ کے میدان میں لوگ صبح دس بجے سے ہی جمع ہونا شروع ہو گئے۔
لیکن پولیس وہاں کسی کو رکنے نہیں دے رہی تھی۔ احتجاج کرنے والے سیکڑوں افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔ بسوں میں لوگوں کو بھر بھر کر کئی کلومیٹر دور بوانہ اسٹیڈیم میں لے جایا گیا۔ خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا۔ بوانہ اسٹیڈیم کو عارضی جیل قرار دیا گیا ہے۔
حراست میں لیے جانے والوں میں سی پی ایم رہنما سیتارام یچوری، ڈی راجہ اور برندا کارات اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہرش مندر اور یوگیندر یادو شامل ہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں میں چار سے زائد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم بدھ کو اس پابندی کے باوجود سیکڑوں مظاہرین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر احتجاج کیا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مظاہرے میں شریک 18 سالہ طالبہ طیبہ حادث نے کہا کہ وہ نریندر مودی کی حکومت سے نالاں ہیں۔ "اس حکومت نے نسلی امتیاز کی انتہا کر دی ہے۔ یہ ہماری بھارت موجودگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لہذٰا ہمیں اس کے خلاف بولنا ہو گا۔"
جمعرات کے مظاہروں کے سلسلے میں نئی دہلی کی مقامی انتظامیہ نے ریلی نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ممبئی میں بھی بدھ کو سیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا۔ انہوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جن پر 'بھارت ہمارا بھی ہے' اور 'ہم سب ایک ہیں' کے نعرے درج تھے۔
مظاہرے میں شریک تعبیر رضوی کا کہنا تھا کہ "یقین نہیں آ رہا ہے کہ مجھے خود کو بھارت کا شہری ثابت کرنا پڑے گا۔"
مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر اقوام متحدہ اور امریکی حکام کی جانب سے تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ "عالمی ادارے کو بھارت میں مظاہرین پر ہونے والے تشدد اور طاقت کے استعمال پر تشویش ہے۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ بھارتی آئین کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
البتہ بھارت کی حکومت ان تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپناتی رہی ہے کہ آئین وفاقی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شہریت دینے کے قوانین میں تبدیلی کرے۔
بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کا موقف رہا ہے کہ مسلمان بھارتی شہریت کے حصول کے لیے دیگر مروجہ طریقوں کے مطابق درخواستیں دے سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر داخلہ نے رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ جس کے تحت ازسر نو شہریوں کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
بھارت کی حکومت نے یہ اقدام ریاست آسام میں اٹھایا تھا۔ جس کے بعد لگ بھگ 20 لاکھ افراد کی شہریت منسوخ کی گئی تھی۔ البتہ انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔