بھارت کی پارلیمنٹ میں متنازع 'شہریت ترمیمی بل' کی منظوری کے خلاف پرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے باعث آسام میں فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب، انڈین یونین مسلم لیگ نے بل سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، ریاست آسام کے علاوہ بھارت کے دوسرے علاقوں سے بھی فوج ریاستی دارالحکومت گوہاٹی طلب کی گئی ہے، جس نے مظاہرے روکنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مظاہرین نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد گاڑیاں نذر آتش کر دی تھیں، جبکہ متعدد مقامات پر ٹائروں کو بھی آگ لگا کر سڑکوں کو بلاک کیا گیا اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہروں کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مظاہرین نے ریلوے اسٹیشنز پر حملہ کیا جب کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اسلحہ استعمال کیا۔
مظاہرین نے آسام کے وزیر اعلیٰ سربنندا سونووال اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے ہی) کے دیگر ارکان کے گھروں پر بھی حملے کیے، جبکہ الزام لگایا کہ وہ نسلی اور مذہبی کشیدگی کی تاریخ رکھنے والے خطے کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں.
مظاہروں کے بعد آسام کے 10 اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹوں کے لیے معطل کر دی گئی۔
حکومت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ممکنہ طور پر جذبات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
مظاہرین متنازع شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے ہیں، جس کے ذریعے بھارت کے کچھ پڑوسی ممالک کی غیر مسلم اقلیتوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم، اپوزیشن جماعتیں اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں جس کے خلاف آسام میں رات بھر ہنگامہ آرائی اور مظاہرے جاری رہے۔
مبصرین اس بل کو متنازع قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، یہ بھارت کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت کے ترمیمی بل کا مقصد بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی محصور اقلیتوں کی حفاظت کرنا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بل میں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے سے ملک کے سیکولر آئین کو نقصان پہنچا ہے، جب کہ دیگر افراد کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے بھارت کی شمالی ریاستوں کو غیر ملکیوں کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ریاست آسام میں اس بل کی سب سے زیادہ مزاحمت کی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آسام میں تحریک کئی عشروں سے جاری ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سے بل کی منظوری کے ساتھ ہی اس کے خلاف احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ چھ اہم مذہبی گروہوں کے لیے قانون سازی کی نئی شہریت کا راستہ اہم بات ہے لیکن مسلمان نہیں۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی ایک رپورٹ کے حوالے سے 'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ یہ قانون، جسے اب صرف صدارتی منظوری کی ضرورت ہے، غیر منصفانہ انداز میں ہندوستان کے 17 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔
بھارت کے دارا الحکومت نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق، انڈین یونین مسلم لیگ نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے متنازع شہریت ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انڈین یونین مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ یہ بل شہریوں کو آئین کے ذریعے تفویض کردہ مساوات کے بنیادی حق کی پامالی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ میں بل کے خلاف یہ پہلی اپیل ہے۔
مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ پی کے کنہالی کُٹی نے اپنی پارٹی کے مزید تین ارکان پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر، عبد الوہاب اور کے نَواس کانی کے ساتھ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔
کنہالی کٹی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔ آئین نے تمام شہریوں کو مساوات کا جو حق دیا ہے یہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی پارٹی نے عدالت عظمیٰ میں پیروی کرنے کے لیے سینئر وکیل اور کانگریس کے رہنما کپل سبل کو خدمات حاصل کی ہیں۔
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور کانگریس نے بھی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔