بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے میانمار کے صوبے رخائن میں جاری تشدد پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سشما سوراج نے کہا کہ اس بحران کا طویل المدتی حل رخائن میں تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کا فروغ ہے جس کا ان کے بقول صوبے کی تمام برادریوں پر مثبت اثر پڑے گا۔
انھوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کو ذہن میں رکھ کر اس مسئلے سے تحمل کے ساتھ نمٹے۔
انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ معمول کی صورتِ حال اسی وقت لوٹے گی جب وہاں سے بے دخل ہونے والے افراد واپس لوٹ جائیں۔
سشما سوراج اتوار کی شام کو ڈھاکہ پہنچی ہیں جہاں وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس میں شرکت کریں گی۔
بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج بنگلہ دیش کے دو روزہ دورے پر اتوار کو ڈھاکہ پہنچی ہیں جہاں وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس میں شرکت کریں گی۔
حکام کے مطابق بھارتی وزیرِ خارجہ دریائے تیستا سے متعلق ایک معاہدے اور روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے پر اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب اے ایچ محمود علی سے بات چیت کریں گی۔
ڈھاکہ میں واقع بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ بنگلہ دیشی قیادت سے ملاقات کریں گی اور یہاں کے کلیدی تھنک ٹینکس، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ثقافتی تنظیموں کے نمائندوں سے بھی تبادلہ خیال کریں گی۔
وہ شمال مغربی شہر کھلنا میں چھوٹے اور متوسط تجارتی اداروں کے لیے ایک مشترکہ سہولت مرکز کے قیام اور بنگلہ دیش کو تیز رفتار ڈیزل کی برآمد سے متعلق دو معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں بھی شریک ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق سشما سوراج نے بڑی تعداد میں بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ڈھاکہ حکومت کی ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ہے۔
اکتوبر کے اوائل میں بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ شاہد الحق بھارت آئے تھے اور انھوں نے صورتِ حال سے نبردآزما ہونے کے لیے بھارت کی جانب سے ممکنہ امداد پر بات چیت کی تھی۔
بنگلہ دیش کے ایک سفارت کار کے مطابق روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے پر گزشتہ دو مہینوں میں بھارت نے سب سے زیادہ بنگلہ دیش کی مدد کی ہے۔
لیکن ان کے بقول دو ماہ کی قلیل مدت میں بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اگر بھارت اور بنگلہ دیش مل کر صورتِ حال سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہیں تو یہ اچھی بات ہوگی۔
بنگلہ دیشی حکام کاکہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں بھارت میانمار کی حکومت پر روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے بھی دباؤ ڈالے تاکہ ان کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ بند ہو۔