|
سرینگر__بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی اسمبلی نے کثرت سے رائے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے حق میں قرار داد منظور کرلی ہے جب کہ بی جے پی نے ایوان میں شدید احتجاج کیا ہے۔
بدھ کو منظور ہونے والی قرارداد میں بھارتی حکومت سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت اس سلسلے میں طریقہء کار بنانے کے لیے جموں و کشمیر کے عوام کی منتخب نمائندوں کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 میں کشمیر کو بھارت کے آئین کے تحت حاصل خصوصی حیثیت منسوخ کردی تھی۔
حال ہی میں منتخب ہونے والی کشمیر کی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار داد میں نریندر مودی حکومت کے اس اقدام کو یک طرفہ قرار دیا۔ ساتھ ہی قراردار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحالی کے اس عمل میں ملک کی وحدت اور جموں وکشمیر کے عوام کی خواہشات کو مقدم اور ملحوظ رکھا جائے۔
ایوان میں قرار داد پیش ہونے کے موقعے پر جموں و کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے شدید احتجاج کیا اور ایوان میں میں نعرے بازی شروع کردی ہے۔
بی جے پی ممبران نے قرار دار کو بھارت دشمن قراردے دیا اورحکمران جماعت نیشنل کانفرنس پر جموں و کشمیر میں پاکستان اور دہشت گردوں کے ایجنڈے پر عمل درآمدکا الزام عائد کیا۔
بی جے پی کے ارکان نے 'بھارت ماتا کی جے‘، ’جے شری رام‘ اور ’وندے ماترم' کے نعرے بھی لگائے اور قرار دار کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اس پر نیشنل کانفرنس کے ممبران نے بھی جم کر نعرہ بازی کی اور قرار داد کو فوری طور پر پاس کرانے پر زور دیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے تینوں ارکان، جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے رکن سجاد غنی لون اور دو آزاد ارکان خورشید احمد شیخ اور شبیر احمد کُلے نے بھی قرار داد کی حمایت کی۔
بی جے پی کی نعرے بازی اور احتجاج کے دوران ہی اسپیکر نے قرار دار پر ووٹنگ شروع کرادی جس میں ارکان کی اکثریت نے اس کی حمایت کی جس پر بی جے پی کے احتجاج میں شدت آگئی۔
ایوان میں بی جے پی کے لیجسلیچر پارٹی لیڈر سنیل شرما نے اسپیکر پر جانب دار ہونے کا الزام لگایا اور قرار دار کو واپس لینے کا مطالبہ دہرایا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا جموں و کشمیر اسمبلی بھارتی پارلیمنٹ سے بالاتر ہے جس نے پانچ اگست 2019 کو ریاست دفعہ 370 کے تحت خصوصی پوزیشن کو منسوخ کرنے کے صدارتی فرمان کی توثیق کی تھی یا پھر بھارتی سپریم کورٹ سے بڑی ہے جس نے اس فیصلے کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔
ایوان میں بی جے پی ممبران کی طرف سے شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہا تو اسپیکر نے ایوان کا اجلاس جمعرات کی صبح تک ملتوی کردیا۔
بی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر ست شرما نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی پارٹی اس قوم دشمن قرار دار کے خلاف ایوان اور ایوان کے باہر جموں و کشمیر کی سڑکوں پر احتجاج جاری رکھے گی۔
وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی نے اپنا کام کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے ایک اور لیڈر اور لوک سبھا کے رکن آغا سید روح اللہ مہدی نے کہا ہے کہ عمر عبد اللہ کی قیادت میں حکومت نے انتخابات میں کیا گیا ایک وعدہ پورا کردیا ہے لیکن جموں و کشمیر کے تشخص اور منفرد شناخت بحالی کرانے کے لیے بڑی لڑائی لڑنا پڑے گی۔
جموں و کشمیر میں حال ہی میں 10 سال کے طویل عرصے کے بعد کرائے گئے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور اس کی حلیف جماعت کانگریس کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی۔
بی جے پی ہندو اکثریتی جموں خطے کی 43 میں سے 29 نشستیں حاصل کرکے نوے ممبران پر مشتمل اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔
فورم