جمعرات کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں کئے گئے دستی بم کے دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 29 افراد جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں زخمی ہو گئے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار ایم کے سنہا نے بتایا کہ بم دھماکہ جموں کے مرکزی بس اڈے میں کھڑی ایک بس کے قریب کیا گیا۔ دستی بم بس کے نیچے زمین پر گر کر ایک زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ بس میں سوار اور اس کے آس پاس کھڑے 30 (بعض اطلاعات کے مطابق 33 ) افراد کو بم کے ذرات لگنے سے چوٹیں آئیں۔ شدید زخمی ہونے والے پانچ افراد میں سے ایک بعد میں جموں کے ایک سرکاری اسپتال میں چل بسا۔ اُس کی شناخت بھارتی ریاست اُترا کھنڈ کے شہری 17 سالہ محمد شارق کے طور پر کی گئی ہے۔
مصروف بس اڈے میں دستی بم کا دھماکہ کرنے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
تاہم بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ واقعے میں ملوث شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں تفصیلات ظاہر کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل سنہا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جس نوجوان نے دستی بم کا دھماکہ کیا اُس کا نام یاسر بٹ ہے اور اُسے عسسکری تنظیم حزب المجاہدین کے کلگام کے ضلع کمانڈر فاروق احمد بٹ عرف عمر نے یہ کام سونپا تھا۔
انہوں نے کہا، "دھماکہ کئے جانے کے فوراً بعد پولیس نے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دیں جنہوں نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج اور عینی شاہدین کے بیانات کی مدد سے ایک مشکوک شخص کی شناخت کی جسے فوری طور پر حراست میں لیا گیا- اُس نے پوچھ گچھ کے دوران جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔"
حزب المجاہدین نے نہ صرف اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے بلکہ اس کی مذمت بھی کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ شہریوں کو ہدف بنانا یا بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر اس طرح کی کارروائی کرنا اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
اس سے پہلے انسپکٹر جنرل سنہا نے کہا تھا کہ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جموں جیسے حساس شہر میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود کون یہ کارروائی کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا۔"جب بھی ہائی سیکورٹی الرٹ جاری کیا جاتا ہے، ہم چیکنگ میں تیزی لاتے ہیں۔ تاہم کسی ناپسندیدہ شخص کی طرف سے اندر گھس جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔ لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ میں ہر ایک شہری سے پُر سکون رہنے کی اپیل کرتا ہوں"
اگرچہ بھارتی کشمیر میں جاری شورش کے پس منظر میں مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں تشدد کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں، لیکن جموں شہر نسبتاً پرامن ہے اور وہاں اس طرح کا واقعہ کئی ماہ بعد پیش آیا ہے۔
عہدیداروں نے اس واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے بس اڈے میں دستی بم کے دھماکے کو دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ "اس بزدلانہ حملے میں ملوث افراد کو عنقریب کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا"۔
گورنر نے ہلاک ہونے والے نو عمر لڑکے کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کے لئے بیس بیس ہزار روپے کی عبوری امداد کا اعلان کیا۔
بھارتی زیرِ انتطام کشمیر کی مختلف سیاسی تنظیموں نے، جن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کا اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' بھی شامل ہے، دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند قوم پرست جماعت جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے چئیرمین محمد یاسین ملک کو سری نگر کے ایک حراستی مرکز سے جموں کی ایک جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ملک کو پولیس نے دو ہفتے پہلے حراست میں لیا تھا۔
پولیس نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کی پوری قیادت سمیت اس کے تقریباً ڈھائی سو ممبران اور چند دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا جا رہا ہے۔
ریاست میں 1978 سے نافذ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر چھہ ماہ تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔
ملک کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کرنے اور پھر جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کرنے کے خلاف سری نگر میں اُن کے آبائی علاقے مائسیمہ میں احتجاجی ہڑتال کی گئی۔ 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے جس کے ملک یاسین ایک رکن ہیں ، اُن کی نظر بندی کے خلاف جمعے کو ریاست میں ایک عام ہڑتال کی اپیل جاری کر دی ہے۔