شورش زدہ کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان کے بٹہ مُورن گاؤں میں رات بھر جاری رہنے والے جھڑپ کے دوران جیشِ محمد نامی عسکری تنظیم سے وابستہ دو جنگجو ہلاک ہو گئے۔ تاہم اُن کا تیسرا ساتھی بھارتی حفاظتی دستوں کا محاصرہ تو ڑکر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اُس کی تلاش میں بھارتی فوج، مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ یا ایس او جی اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران ایک وسیع رہائشی علاقے کو گھیرے میں لے کر گھر گھر تلاشی کی مہم شروع کر دی۔
سرچ آپریشن جاری تھا کہ مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آکر بھارت مخالف مظاہرے کرنے لگی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حفاظتی دستوں نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا ۔ جب کہ مظاہرین کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا گیا، جس کے جواب میں حفاظتی دستوں نے اُن پر فائرنگ کی اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔ ان واقعات میں ایک درجن سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
شدید زخمی ہونے والی 24 سالہ خاتون رُوبی جان اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی ہلاکت پیٹ میں گولی لگنے سے ہوئی۔
مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ حفاظتی دستوں نے جان بوجھ کر خاتون کو گولی کا نشانہ بنایا۔
سری نگر میں پولیس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والی خاتون بٹہ مُورن گاؤں میں ایک نجی گھر میں محصورعسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کے تبادلے کی زد میں آگئی تھی۔
ایک اور واقعے میں جو نو دن پہلے سرحدی ضلع کپوارہ میں پیش آیا تھا ایک اور خاتون مصرہ بانو ہلاک ہوگئی تھی۔ اس واقعے اور اختتامِ ہفتہ کپوارہ ہی میں بھارتی فوج کی مبینہ فائرنگ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور آصف اقبال کی ہلاکت کے بعد شورش زدہ ریاست کے کئی علاقوں میں تین دن تک احتجا جی ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
بھارتی فوج کا کہناہے کہ یہ دونوں ہلاکتیں بھی عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان گولیوں کے تبادلے کی زد میں آنے کے باعث ہوئیں۔
لیکن استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے ایک اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے اسے بھارتی فوجی دستوں کی طرف سے جاری کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے ان واقعات کے خلاف ایک روزہ عام ہڑتال کی اپیل جاری کردی ہے۔
ادھر پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ شوپیان میں ہلاک کئے گئے مقامی جنگجو تنویر احمد کو اس کے والدین کی درخواست پر ہتھیار ڈالنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا لیکن اس نے اپیل کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حفاظتی دستوں پر فائرنگ جاری رکھی۔
ترجمان کے مطابق جوابی فائرنگ میں تنویر اور اُس کا غیر ملکی ساتھی علی عرف قاری ہلاک ہو گئے، جب کہ تیسرا ساتھی اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہلاک کیے جانے والے عسکریت پسند دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھے جن میں ایک بینک کے دو محافظوں کا بھی شامل ہے۔
شوپیان سے تازہ اطلاعات کے مطابق دن بھر جاری رہنے والی جھڑپوں میں 58 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ ان میں سے چھہ کو جن کے گولیاں لگی تھیں سری نگر کے اسپتالوں کو ریفر کیا گیا ہے۔
ان اطلاعات میں ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 24 زخمیوں کو پلوامہ کےسرکاری ضلع اسپتال میں، 23 کو شوپیان اور 11 کو راجپورہ کے شفا خانوں میں علاج کے لئے داخل کیا گیا ہے۔ بیشتر افراد کے پیلٹ فائرنگ میں زخم آگئے ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔