جمعرات کو سری نگر کےپرانے شہر میں حفاظتی پابندیاں مزید سخت کردی گئیں، بالخصوص تاریخی پتھر مسجد جانے والی تمام سڑکوں اور گلی کوچوں کو خاردارتار بچھا کر اور بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے علاقے کو سیل کردیا گیا۔
سکیورٹی کے اِن سخت اقدامات کا مقصد کشمیری خواتین کو وہاں جمع ہوکر مجوزہ بھارت مخالف اجتماع میں شریک نہ ہونے دینا تھا، جِس کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس نے جاری کی تھی۔ ممکنہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے شہر میں تقریباً 400خواتین پولیس اہل کار تعینات کردی گئی تھیں۔
دوپہر کے قریب قدامت پسند خواتین کی تنظیم، دخترانِ ملت کی قائدہ، سیدہ آسیہ اندرابی اپنے درجنوں ساتھیوں اور حامیوں کے ہمراہ شہر کے مغل مالا چھتبل علاقے سے پتھر مسجد کی طرف پیش قدمی کرنے لگیں تو پولیس نے اُن کا راستہ روکا۔ برقعہ پوش خواتین نے مزاحمت دکھائی جِس پر پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اُنھیں منتشر کردیا۔
سری نگر کے ہی بعض دوسرے علاقوں سے بھی خواتین نے احتجاجی جلوس نکالے لیکن پولیس نے اشک آور گیس کے گولے داغ کر پھر مسجد کی طرف مارچ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ مجموعی طور پر شہر میں صورتِ حال پُر امن رہی۔
اُدھر، شمال مغربی شہر سوپور سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ سات دِن کے مسلسل کرفیو کے باعث مقامی آبادی شدید مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے۔