رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں پابندیوں سے معیشت کو 18 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا: تاجر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی تاجر تنظیموں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران وادی میں کاروباری مشکلات اور پابندیوں کے باعث اب تک 18 ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایوانِ صنعت و تجارت کے حکام کی جانب سے بدھ کو ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غیر یقینی صورتِ حال نے بھارتی کشمیر کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پابندیوں کے باعث وادی کے 10 اضلاع میں 18 ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ سروسز، مواصلاتی رابطے محدود ہونے کے باعث ان کاموں سے منسلک افراد کو مالی خسارے کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان سیاحت، تجارت، ٹرانسپورٹ، باغبانی، صنعت و حرفت اور مال مویشی سے منسلک شعبوں کو اٹھانا پڑا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 120 دنوں یعنی پانچ اگست سے تین دسمبر تک وادئ کشمیر کے دس اضلاع میں معیشت کو مجموعی طور پر 17 ہزار 8 سو 78 روپے کا نقصان ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں یعنی بینکوں کو 1 ہزار 184 کروڑ روپے جبکہ پیشہ ورانہ خدمات بہم پہنچانے والے اداروں، مکانات و اراضی کی خرید وفروخت اور رئیل اسٹیٹ شعبے کو 3 ہزار 125 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا اندازہ ہے۔

کشمیر ایوان تجارت و صنعت کے سربراہ شیخ عاشق حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ بھاری نقصانات اٹھانے کے باوجود متاثرہ افراد نے ازالے کے لیے حکومت سے درخواست نہیں کی۔ لیکن یہ نقصان کیوں کہ حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ لہذٰا حکومت کو ہی اس کی تلافی کرنی چاہیے۔

کشمیری تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک وفد نےحال ہی میں نئی دہلی میں وفاقی وزیر برائے صنعت و حرفت پیوش گوئل سے ملاقات کی تھی۔ اور انہیں علاقے میں پائی جانے والی مخدوش صورتِ حال کے نتیجے میں تاجروں، صنعت کاروں، ٹرانسپورٹروں، آن لائن کاروبار سے منسلک افراد کی مشکلات سے آگاہ کیا تھا۔

شیخ عاشق نے جو اس وفد میں شامل تھے کہا کہ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس نقصانات کی تفصیلات نہیں ہیں لہٰذا متاثرین کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں رپورٹ مرتب کریں۔ لہذٰا یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 کے تباہ کن سیلاب کے دوران وادئ کشمیر کی معیشت کے مختلف شعبوں کو 40 ہزار سے ایک لاکھ کروڑ روپے تک کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ جولائی 2016 میں عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد ہونے والی بدامنی کے نتیجے میں وادی کو ایک مرتبہ پھر ناقابلِ تلافی مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتِ حال اور مقامی لوگوں کی کمزور مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کا ترقی کا ایجنڈا کچھ لوگوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف لگتا ہے۔ چیمبر آف کامرس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے جدید اسلحے سے لیس بھارتی سیکیورٹی فورسز کی وادی کے مختلف حصوں میں موجودگی سے پیدا ہونے والا ماحول کشمیر کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مذاکرات اور مباحثے کے لیے معقول ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں گرفتار سیاسی، مذہبی اور تجارتی تنظیموں کے نمائندوں کی رہائی ضروری ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی حکومت نے رواں سال پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔

اس اقدام کو چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جموں و کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آ سکے۔ البتہ بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ کشمیر کے حالات بتدریج معمول پر آ رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG