بھارت نے مزید فوجی دستے خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے زیر انتظام کشمیر میں پہنچا دیے ہیں۔ یہ دستے نئی دہلی سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے سری نگر پہنچائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ہزار فوجی ریل کے ذریعے جموں پہنچ چکے ہیں جہاں سے انہیں ریاست کے مختلف علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ فوجی دستوں میں وفاقی پولیس فورس اور نیم فوجی شامل ہیں۔ ان کی تعداد 25 سے 28 ہزار بتائی جا رہی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں اضافی فورسز کی تعیناتی کے سبب ریاست بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی ہے اور مختلف خدشات کا برملا اظہار کیا جانے لگا ہے۔
کشیدہ صورت حال میں جمعے کو اُس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب ریاست کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری ایک ایڈوائزری میں وادی میں موجود سیاحوں اور امرناتھ یاترا پر گئے ہوئے عقیدت مندوں کو دورہ مختصر کرکے جلد از جلد وہاں سے واپس جانے پر زور دیا گیا ہے۔ ایڈوائزی میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے خدشات بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔
سابق رکن اسمبلی اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی رہنما محمد یوسف تاریگامی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال سب کو فکر مند اور پریشانی میں مبتلا کر دینے والی ہے۔ ہر شخص پریشان ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
نئی دہلی سے موصول ہونے والی بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ حکومت آئین ہند کی دفعہ 35 اے کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کرا رہی ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ اس اقدام کی عوامی سطح پر مزاحمت کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ریاست میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے، لہٰذا، اسے کنٹرول کرنے کے لیے فوجی دستوں کو کشمیر پہنچایا جا رہا ہے۔
دفعہ 35 اے کے تحت ریاست میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے آبائی یا مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔
نیز اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے آبائی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون سازوں کو حاصل ہے، جبکہ دفعہ 35 اے کے خلاف کئی درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
جمعے کو سری نگر میں یہ افواہ بھی سرگرم رہی تھی کہ بھارتی فوج اور فضائیہ حد بندی لائن کے پار پاکستانی کشمیر میں ایسے مقامات اور ٹھکانوں کو ہدف بنانے کی تیاری کر رہی ہے جنہیں، جیسا کہ بھارت کا الزام ہے کہ دہشت گردی کے لانچنگ پیڈز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
تاہم، نئی دہلی میں وزارت داخلہ نے جمعے کو بتایا کہ وفاقی آرمڈ پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی ریاست کی حفاظتی صورتِ حال اور ان کی تعیناتی میں رد و بدل کی ضروریات کے پیشِ نظر کی گئی ہے اور یہ کہ اس طرح کے معاملات پر کھلے عام بحث نہیں کی جاتی۔
بھارت کے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے وزارت داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ وفاقی آرمڈ پولیس فورسز کی جن ایک سو کمپنیوں کو ریاست میں بھیجنے کی ایک ہفتہ پہلے منظوری دی گئی تھی اُنہیں وہاں پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے اور غالباً اسی وجہ سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
ایک اور بھارتی خبر رساں ادارے، ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ وادی کشمیر میں جاری صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومت نے بھارتی فضائیہ اور بری فوج کو ہائی آپریشنل الرٹ پر رکھ دیا ہے۔
ریاست کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے اس خبر کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں استفسار کیا کہ کشمیر میں کونسی ایسی صورتِ حال درپیش ہے کہ جس کے پیشِ نظر فوج اور فضایہ کو ہائی الرٹ کرنے کی ضرورت پیش آئی؟
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ یہ سب دفعہ 35 اے یا ریاست میں از سر نو حد بندی کرانے سے متعلق نہیں ہے۔ اگر اس طرح کی چوکسی کا واقعی حکم دیا گیا ہے تو ایسا کسی اور سبب سے کیا گیا ہوگا۔