پیر کے روز اِس خبر کے بعد کہ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کےباہر چند قدامت پسند عیسائیوں نے قرآن مجید کے نسخے کے اوراق پھاڑ ڈالے، وادیٴ کشمیر میں بھارت مخالف ہنگاموں نے بدتر صورتِ حال اختیار کر لی ہے۔
مظاہرین نے جگہ جگہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور بعض حفاظتی دستوں پر حملے کیے۔ حفاظتی دستوں نے نصف مقامات پر مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوم پر گولی چلا دی۔اِن واقعا ت میں مرنے والوں کی تعداد اب بڑھ کر 18ہوگئی ہے۔
گذشتہ تین ماہ کے دوران، فائرنگ اور مارپیٹ کےنتیجے میں ہلاک ہونےوالوں کی تعداد90ہوگئی ہے۔
حفاظتی دستوں پر سنگ باری کے واقعات اور اُن کی طرف سےکی گئی جوابی کارروائی اور کرفیو توڑ کر احتجاجی مظاہرے کرنے والوں پر طاقت کے استعمال کے نتیجے میں 40سے زائد افراد کے چوٹیں آئیں۔
احتجاجی مظاہروں کا دائرہ اب جموں کے سرحدی شہر پونچھ اور مشرق میں کشتواڑ تک پھیل گیا ہے۔ پونچھ میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے بھارتی ذرائع ابلاغ کی اِن خبروں کی تردید کی ہے کہ اُنھوں نے وفاقی حکومت کے اِس الزام کے ردِ عمل میں کہ وہ عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں مستعفی ہونے کی پیش کش کی ہے۔
عمر عبد اللہ نے کہا کہ وہ مستعفی ہوکر کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔
بھارتی کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور دوسرے اہم امور پر غور و خوض کرنے کےلیے حکمراں نیشنل کانفرنس کے کور گروپ کا ایک ہنگامی اجلاس سری نگر میں طلب کیا گیا ہے۔