رسائی کے لنکس

جب ملائم سنگھ نے بابری مسجد کی جانب بڑھنے والے کار سیوکوں پر گولی چلانے کا حکم دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے سابقِ وزیرِ دفاع اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہنے والے سیاسی رہنما ملائم سنگھ یادو 82 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

وہ گزشتہ دو ہفتوں سے دہلی کے نزدیک اسپتال میں داخل تھے تاہم ان کے بیٹے اور سماج وادی پارٹی کی سربراہی کے لیے ان کے جانشین بننے والے اکھلیش یادو نے پیر کو ان کی موت کا اعلان کیا۔ملائم سنگھ یادو کو ان کے حامی ’نیتا جی‘ کہا کرتے تھے۔ اکھلیش یادو نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ میرے والد اور آپ سب کے نیتا جی دنیا میں نہیں رہے۔

یوپی کے ‘نیتا جی‘ ملائم سنگھ یادو نے ایک طویل سیاسی سفر طے کیا۔جوانی میں پہلوانی کرنے والے ملائم سنگھ یادو اپنے سیاسی کریئر کا آغاز 1970 کی دہائی میں کرچکے تھے۔ لیکن 1980 کی دہائی میں وہ ایک رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

یہ اس دور کی بات ہے جب بھارت میں صدیوں سے رائج ذات پات کے نظام کے باعث سماجی طور پر پس ماندہ ذات برادریوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیے گئے ’منڈل کمیشن‘ کی رپورٹ سامنے آئی تھی۔

اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں معاشی اور سماجی پیمانوں کی بنیاد پر بھارت میں پس ماندہ ذاتوں کے ’دیگر پس ماندہ‘ طبقات (او بی سی) کے لیے مرکزی و ریاستی سطح پر سرکاری ملازمتوں میں کوٹا مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔

اس رپورٹ کی سفارشات کے حق اور مخالفت میں کئی آوازیں اٹھیں اور احتجاج بھی ہوا۔ اس احتجاج کے دوران ملائم سنگھ یادو ایک سوشلسٹ رہنما کے طور پر پس ماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے دفاع کرنے والے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

وہ اس سے قبل سوشلسٹ رہنما رام منوہر لوہیا کی فکر سے متاثر ہوئے۔ لوہیا اس دور میں بھارت میں پسماندہ ذاتوں کے لیے مؤثر آواز تصور ہوتے تھے۔

ملائم سنگھ یادو بعد میں جنتا دَل میں شامل ہوئے اور 1977 میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں پہلی بار ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور وزیر بھی بن گئے۔

وزیر بننے کے بعد انہوں نے یوپی میں پس ماندہ ذاتوں کے لیے نشستیں مخصوص کیں جس کے بعد شیڈولڈ کاسٹ کے حلقوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔

یہی وجہ تھی کہ جب 1989 میں جنتا دل کانگریس کی حمایت کے ساتھ یوپی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تو ملائم سنگھ کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں وزیرِ اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ملائم سنگھ نے 1970 کی دہائی سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا۔
ملائم سنگھ نے 1970 کی دہائی سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا۔

رام مندر کی تحریک

وزیراعلیٰ بننے کے بعد ملائم سنگھ یادو کو ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا تھا کیوں کہ یوپی کے شہر ایودھیا میں قائم بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے مہم کا آغاز ہوچکا تھا۔

دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ 15 ویں صدی میں قائم ہونے والی بابری مسجد ہندو دھرم کی مقدس شخصیت رام کی جائے پیدائش پر قائم مندر کو منہدم کرکے بنائی گئی ہے اور اس مندر کو بحال ہونا چاہیے۔

دائیں بازو کی جماعتوں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی نے 1986 سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندربنانے کے لیے مہم کا آغاز کردیا تھا۔ لیکن اس میں اس وقت تیزی آئی جب اس وقت کے بی جے پی کے صدر لال کرشن ایڈوانی نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔

اسی رتھ یاترا کے دوران ایودھیا پر مسجد کے انہدام کے لیے آنے والے رضاکاروں یا ’کارسیوکوں‘ کو روکنے کے لیے ملائم سنگھ کی حکومت کا اقدام ان کی سیاست کے لیے ایک فیصلہ کُن واقعہ ثابت ہوا۔

گولی چلانے کا حکم

انڈیا ٹو ڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق وی پی سنگھ کی حکومت کی جانب سے پس ماندہ ذاتوں کے لیے ملازمت کے کوٹے پر عمل درآمد کے اعلان کو آر ایس ایس اور بی جے پی ہندوؤں کو تقسیم کرنے کوشش تصور کرتے تھے۔

منڈل کمیشن میں ذات کی بنیاد پر نشستیں مخصوص کرنے کے فیصلے پر اونچی ذات کے ہندوؤں میں پہلے ہی بے چینی پائی جاتی تھی۔ یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہندوؤں کے ووٹ بینک کی تقسیم کا بھی باعث بن رہی تھی۔ اس لیے آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہندوؤں کی سماجی وحدت قائم رکھنے کو اپنا مشترکہ ہدف قراردیا۔

منڈل کمیشن کی رپورٹ پر اگست 1990 میں عمل درآمد کا آغاز کیا گیا اور اسی برس اکتوبر میں رام مندر کے قیام کی تحریک بھی شروع ہوگئی۔

وی پی سنگھ کی قیادت میں قائم جنتا دل کی حکومت کو مرکز میں مشکلات کا سامنا تھا۔ رام مندر تعمیر کی تحریک کا محور یوپی ریاست تھی جہاں اسی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو وزیرِ اعلیٰ تھے۔

جنتا دل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے آر ایس ایس، بی جے پی اور وشیو ہندو پریشد کی مہم کی سخت مخالف تھی۔یہی وجہ تھی کہ اکتوبر 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے اعلان کیا کہ اگر کار سیوک یوپی میں داخل ہوئے تو انہیں قانون پر عمل کا سبق پڑھایا جائے گا اور کسی کو مسجد گرانے نہیں دی جائے گی۔

ملائم سنگھ تین بار اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔
ملائم سنگھ تین بار اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔

رتھ یاترا کے ایودھیا میں داخل ہونے سے قبل ہی اس وقت بہار میں جنتا دل کے وزیرِ اعلیٰ لالو پرساد کی حکومت نے ایڈوانی کو گرفتار کرلیا تھا۔ تاہم ایودھیا میں کارسیوکوں یا رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی۔

رضا کاروں نے 30 اکتوبر 1990 کو بابری مسجد کی جانب پیش قدمی شروع کی تو ان کا پولیس سے تصادم ہوگیا۔ وشیو ہندو پریشد، آر ایس ایس اور بی جے پی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کا اعلان تو کرچکے تھے۔

یوپی حکومت نے بابری مسجد کے سخت سیکیورٹی نافذ کردی تھی اور کار سیوکوں کی پیش قدمی پرہجوم کو منتشر کرنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کی ہدایت کے مطابق فائرنگ شروع کردی گئی۔

فائرنگ کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی اور پولیس نے کارسیوکوں کا تعاقب کرکے انہیں گرفتار بھی کیا۔

اس کے بعد دو نومبر 1990 کو ایک اور تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 17 ہلاکتیں ہوئیں تاہم بی جے پی کا دعویٰ رہا ہے کہ ملائم سنگھ کے حکم پر پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

ملائم سنگھ کا دفاع

ملائم سنگھ کے اقدام کو ان کے ناقدین اور سیاسی مخالفین خاص طور پر بی جی پی کی جانب سے انہیں ہندو مخالف ثابت کرنے کے لیے دہرایا جاتا تھا۔ لیکن وہ اپنے اس فیصلے کا دفاع کرتے تھے۔

انہوں نے 2017 میں اپنی سالگرہ کے موقعے پر کہا تھا کہ ایک لاکھ سے زائد کارسیوک ایودھیا میں جمع ہوچکے تھے جو ایک متنازع مقام پر مندر بنانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کا اتحاد قائم رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا اور اگر اس کے لیے مزید لوگوں کی جانیں بھی درکار ہوتیں تو وہ اس اقدام سے دریغ نہیں کرتے۔

اس سے قبل وہ 2017 میں بھی ایک ایسا ہی بیان دے چکے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے بھارت پر مسلمانوں کا بھروسہ قائم رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا۔

نومبر 2017 میں ملائم سنگھ کے خلاف 1990 میں ہونے والی ہلاکتوں کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں۔

ملائم سنگھ کے بیٹے اکھلیش بھی یو پی کے وزیر اعلیٰ رہے۔
ملائم سنگھ کے بیٹے اکھلیش بھی یو پی کے وزیر اعلیٰ رہے۔

سماج وادی پارٹی کا قیام

جریدے آؤٹ لک کے مطابق 1990 میں ایودھیا میں ہونے والے واقعے کے بعد شمالی بھارت میں ہندو قوم پرستی کی لہر کے آگے ملائم سنگھ یادو ٹھہر نہیں پائے اور بی جے پی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔

سن 1992 میں بابری مسجد منہدم کردی گئی۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات ہوئے۔ ان حالات سے مسلم ووٹرز میں ملائم سنگھ یادو کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔

انہوں نے 1992 میں سماج وادی پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1993 میں بہوجن سماج وادی پارٹی کی مدد سے وزیرِ اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔ بعدازاں 2003 میں وہ ایک بار پھر یوپی کے وزیرِ اعلٰی بنے۔

ملائم سنگھ یادو کے سیاسی سفر میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب وہ یوپی سے بڑھ کر قومی سیاست میں آئے اور 1996 میں بھارت کے وزیرِ دفاع بھی بنے۔

سیاسی داؤ پیچ

اپنے سیاسی کریئر میں سوشلسٹ ملائم سنگھ یادو مختلف سیاسی پروگرام رکھنے والی جماعتوں کے اتحادی رہے۔ ایک دور میں ان کا نام بھارت کے وزیرِ اعظم کے امیدواروں میں بھی لیا جانے لگا۔ ان کی پہلوانی کے پس منظر کی وجہ سے انہیں سیاسی ’داؤپیچ‘ کا بھی ماہر سمجھا جاتا تھا۔

اگرچہ وہ کبھی وزارتِ عظمی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکے لیکن ان کی جماعت کئی حکومتی اتحادوں میں شریک رہی۔ کیوں کہ لوک سبھا میں سب سے زیادہ ارکان یوپی سے آتے ہیں جو ان کی سیاست کا گڑھ رہا۔

ملائم سنگھ نے 2012 میں سماج وادی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے اکھلیش یادو کے سپرد کردی جو بعدازاں پانچ سال تک یوپی کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔

سن 2017 میں بی جے پی نے انتخابات میں کام یابی کے بعد یو پی میں حکومت بنائی اور وزیرِ اعظم کے قریبی ساتھی تصور ہونے والے یوگی ادتیہ ناتھ وزیرِ اعلیٰ بنے۔ 2020 کے انتخابات میں اگرچہ اکھلیش ایک کامیاب امیدوار بن کر سامنے آئے تاہم یوگی ادتیہ نات وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے میں کام یاب رہے۔

ملائم سنگھ یادو کو سیاسی داو پیچ کا ماہر کہاجاتا تھا۔
ملائم سنگھ یادو کو سیاسی داو پیچ کا ماہر کہاجاتا تھا۔

اپنے سیاسی زندگی میں ملائم سنگھ کئی تنازعات میں بھی گھرے رہے۔ 1990 کے واقعے کے بعد بی جے پی کی جانب سے انہیں ’ملا ملائم‘ کا نام دیا گیا تو کبھی ریپ اور خواتین سے متعلق ان کے متنازع بیانات تنقید کی زد پر رہے۔

انہیں آر ایس ایس کا کٹر مخالف تصور کیا جاتا تھا لیکن 2001 میں تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت کے ساتھ ان کی ایک تقریب میں شرکت کی تصویر سامنے آنے کے بعد کانگریس سے لے کر بی جے پی تک سبھی نے ان پر کڑی تنقید کی۔

ملائم سنگھ کے اپنے بیٹے اکھیلش یادو سے سیاسی اختلافات بھی سامنے آتے رہے اور 2019 میں انہوں نے اپنی سیاسی حریف جماعت بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دوبارہ انتخاب کی بھی خواہش ظاہر کی۔

جریدے آؤٹ لک میں ملائم سنگھ کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصر ابھک بھٹا چاریہ نے لکھا کہ ملائم سنگھ یادو نے منڈل رپورٹ کے بعد ذات پات پر ہونے والے احتجاج سے لے کر مودی کی بڑھتی ہوئی کامیابی تک ہر موقعے پر حالات کا درست اندازہ لگایا اور ان حالات کو سیاست کے لیے استعمال کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں ملائم سنگھ کا ابھرنا بھارت کی طرزِ سیاست کی مکمل مثال ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں جہاں طاقت مل سکتی ہے وہاں تک اس کا تعاقب کرو۔

XS
SM
MD
LG