بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے خلاف متنازع بیان کے معاملے میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق ججز، سابق بیوروکریٹس اور مسلح افواج کے سابق عہدے داروں پر مشتمل 117 افراد کے ایک گروپ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام خط لکھا ہے۔ اس کھلے خط میں نوپور شرما کے خلاف سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے انہیں عدالتی اخلاقیات کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کے بینچ نے یکم جولائی کو سماعت کے دوران نوپور شرما کے متنازع بیان پر ریمارکس دیے تھے کہ اس وقت بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، نوپور اس کی تنہا ذمے دار ہیں۔
یہ سماعت نوپور شرما کی ہی درخواست پر ہو رہی تھی جس میں انہوں نے اپنے خلاف ملک کے مختلف حصّوں میں درج ہونے والے مقدمات کو نئی دہلی منتقل کرنے کی استدعا کی تھی۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نوپور شرما کو ہدایت کی تھی کہ وہ ٹی وی پر پوری قوم سے معافی مانگیں۔
بینچ نے اُدے پور میں ایک ہندو درزی کے قتل کے لیے بھی انہی کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیانات کی وجہ سے پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے۔
ججز کے یہ ریمارکس زبانی تھے جنہیں فیصلے کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ عدالتی ضابطوں کے مطابق زبانی ریمارکس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی پابندی لازم ہے۔
پندرہ سابق ججز، 77 سابق بیوروکریٹس اور مسلح افواج کے 25 سابق افسران نے اپنے خط میں نوپور شرما کے خلاف ان ریمارکس کو ادے پور میں ہونے والے قتل کے ملزمان کو زبانی معافی دینے کے مترادف اور افسوس ناک قرار دیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ "عدلیہ کی تاریخ میں اس قسم کے شرم ناک رویّے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سپریم کورٹ کے اس قسم کے نقطۂ نظر کی کوئی بھی شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ یہ ریمارکس سپریم کورٹ کی حرمت کو متاثر کرتے ہیں۔"
خط پر دستخط کرنے والوں میں ممبئی، گجرات، راجستھان اور دہلی کی ہائی کورٹ کے سابق ججز شامل ہیں۔
ملک کے ممتاز قانون دان جسٹس سہیل اعجاز صدیقی اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ نوپور شرما کے بارے میں سپریم کورٹ کے ججز نے جیسا سخت تبصرہ کیا، ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔
لیکن جسٹس صدیقی نے سپریم کورٹ کے ریمارکس پر سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید پر کوئی بھی رائے دینے سے انکار کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے کہا کہ اگر عدالت کے کسی زبانی تبصرے پر کوئی رائے زنی کی جارہی ہے تو وہ توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتی لیکن فیصلے پر غلط تبصرہ کرنا توہینِ عدالت ہے۔
البتہ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اے رحمان ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی فیصلے پر تنقید کا مقصد عدالت کی تذلیل نہ ہو تو تنقید کی اجازت ہے۔
چیف جسٹس کے نام سرکردہ شخصیات کے خط سے متعلق انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ غالب امکان ہے یہ خط کسی دباؤ کے تحت لکھا گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوپور شرما کے خلاف جو ریمارکس دیے گئے وہ ایک پلاننگ کا حصہ اور نوپور کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مطمئن کرنے کے لیے تھے۔
"تاکہ باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی۔"
اے رحمان ایڈووکیٹ اپنے اس خیال کی یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ اگر عدالت واقعی سمجھتی ہے کہ نوپور شرما کی وجہ سے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے تو اس نے ان کی گرفتاری کا حکم کیوں نہیں دیا؟
"عدالت نے یہ کہہ کر کہ نوپور کی وجہ سے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے، انہیں مجرم قرار دے دیا۔ لیکن جب مجرم قرار دیا تو پھر سزا کیوں نہیں سنائی؟"
سپریم کورٹ کے تبصرے پر جب میڈیا کی جانب سے مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو سے ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مناسب فورم پر غور و خوض کیا جائے گا۔
نوپور شرما کے خلاف ان ریمارکس کے بعد سوشل میڈیا پر جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کے خلاف بیان بازی بھی کی جا رہی ہے۔ دونوں ججز پر سخت تنقید کے ساتھ ذاتی حملے بھی کیے گئے ہیں۔
جسٹس پاردی والا نے اتوار کو ذاتی حملوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججز پر ان کے فیصلوں کی وجہ سے کیے جانے والے ذاتی حملے ہمیں خطرناک رجحان کی طرف لے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں قانون کیا سوچتا ہے، یہ نہیں کہ میڈیا کیا سوچتا ہے۔
ان کے بقول سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جو تبصرے کیے جا رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچتا ہے۔
جسٹس پاردی والا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آئین کے تحت قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے پورے ملک میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو ضابطے کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔
اے رحمان ایڈووکیٹ اس معاملے پر کہتے ہیں کہ جسٹس پاردی والا پر اس لیے ذاتی حملے کیے جا رہے ہیں کیوں کہ "عوام ان کے دوہرے رویّے سے واقف ہوگئے ہیں۔"
"اگر ایسا نہیں تھا تو انہوں نے دہلی پولیس کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ نوپور شرما کو گرفتار کرے اور عدالت کو اس کی تعمیل کے سلسلے میں اپنی رپورٹ دے۔"
اے رحمان ایڈووکیٹ کے خیال میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس پاردی والا کے بینچ نے نوپور شرما کو ریلیف دیا ہے۔ کیوں کہ جب ان کے وکیل نے کہا کہ وہ اپنی عرضی واپس لینا چاہتے ہیں تو بینچ نے اس کی اجازت دے دی اور یہ بھی اجازت دی کہ وہ چاہیں تو از سرِ نو درخواست دائر کرسکتے ہیں۔