بھارت کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی حکومت کو آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد عائد پابندیوں سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا ہو گا۔
جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مواصلاتی رابطوں اور دیگر پابندیوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ وہ تمام سوالات کے جواب تفصیل سے دیں۔
جسٹس این وی رمانا کی سربراہی میں بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس بی آر گوائے اور جسٹس آر شرما بھی شامل تھے۔
دوران سماعت جسٹس رمانا نے سولیسٹر جنرل توشار مہتا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے تفصیل کے ساتھ پابندیوں سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا ہے۔ لیکن حکومت کے بیان حلفی سے عدالت کی تشفی نہیں ہوئی۔ لہذٰا، حکومت اس تاثر کو رد کرے کہ وہ آرٹیکل 370 کے بعد کشمیر میں عائد پابندیوں سے متعلق حقائق چھپانا چاہتی ہے۔
توشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزاروں نے بعض حقائق کو مسخ کیا ہے۔ وہ عدالت کے سامنے صورتِ حال رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کے پاس جموں و کشمیر کی صورتِ حال سے متعلق تازہ ترین رپورٹ موجود ہے۔ لیکن وادی میں ہر روز حالات بدل رہے ہیں۔ لہذٰا، عدالت میں وہ رپورٹ پیش کی جائے گی جو حتمی ہو۔
دوران سماعت بھارتی سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وہ لوگوں کو حراست میں لیے جانے کا کیس نہیں سن رہی۔ ہم مواصلاتی رابطوں کی بندش، نقل و حمل پر پابندیوں اور آزادی صحافت سے متعلق شکایات سن رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے بدھ کو بھارت کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) میں رپورٹ پیش کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔
حکومت کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا اختیار مقامی انتظامیہ کو دیا گیا ہے۔ امت شاہ نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے حالات خراب کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ لہذٰا، وادی میں سیکورٹی کو سخت کیا گیا ہے۔
بھارت نے پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس اقدام سے قبل بھارت نے مزید فوجی دستے کشمیر میں تعینات کر دیے تھے۔
بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر میں نقل و حمل پر پابندیوں کے علاوہ مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے تھے اور مزاحمتی تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو بھی نظر بند کر دیا تھا۔
پاکستان نے ان بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت نے اس اقدام کے ذریعے 80 لاکھ سے زائد کشمیری شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتوں خصوصاً کانگریس نے بھی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔ کانگریس نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیر کی اصل صورتِ حال سے پارلیمان کو آگاہ کرے۔
بھارت کے مختلف طبقات سول سوسائٹی، صحافی اور سیاست دانوں نے کشمیر میں پابندیوں کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیاں ہٹائے۔