وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے کہا ہے کہ ”جب تک سرحد پار سے برآمد کی جانے والی دہشت گردی پر روک نہیں لگائی جاتی، مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات خارج از امکان ہیں“۔
انھوں نے کہا کہ اگر عمران خان کی حکومت مذاکرات کی تجدید چاہتی ہے تو اسے دہشت گردی کے محاذ پر کارروائی کرنی ہوگی۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے باوجود کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی جاری ہے۔ انھوں نے یہ باتیں انگریزی روزنامہ ’ٹائمس آف انڈیا‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہیں۔
ان سے عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش اور ان کے اس بیان سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا کہ ’اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا‘۔
یاد رہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی برآمد کرنے کے الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔
ادھر نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ باہمی تعلقات کے سلسلے میں پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کا رویہ مثبت ہے اور بھارت کو بھی مثبت رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بھارت کے سابقہ مؤقف پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
سینئر تجزیہ کار انجم نعیم نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پاکستان کے دوسرے رہنماؤں سے مختلف ہیں۔ ان کے بیانات بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگوں سے ان کے ذاتی روابط بھی ہیں۔ انھوں نے حکومت میں آتے ہی اچھے تعلقات کے قیام کی بات کی ہے۔
لیکن، انھوں نے مزید کہا کہ، بھارت کی جانب سے اس انداز میں مثبت رویے کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ نرملا سیتا رمن نے جو بیان دیا ہے وہ بھارت کا پرانا مؤقف ہے۔ اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہاں کی حکومت مختلف سطحوں پر پاکستان کے ساتھ رشتے بہتر بنانے کے اقدامات کرے گی۔
ایک دوسرے تجزیہ کار آلوک موہن نے بھی عمران خان کے مؤقف کی ستائش کی اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک آگے بڑھیں اور دوستی کی نئی راہ پر چلیں۔ بھارت ہو یا پاکستان کسی کو بھی لکیر کا فقیر نہیں بننا چاہیے۔
آلوک موہن نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے سلسلے میں عمران خان کو اقدامات کرنے ہوں گے۔