بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد آغا غنی شاہ کے ہاں 1879ء میں 3 اور4 اپریل کی درمیانی شب، بنارس میں بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام آغا حشر رکھا گیا۔ چونکہ، گھر کا ماحول مذہبی تھا اور آغا غنی شاہ خود بھی بہت مذہبی آدمی تھے، لہذا، اُن کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا عالم ِدین بنے۔ اسی وجہ سے عربی، فارسی اور دینیات کے ساتھ ساتھ ان کو قرآن پاک بھی حفظ کرایا گیا۔
بچپن میں آغا حشر کو کشتی، پیراکی اور شطرنج سے بہت شغف تھا۔ اس طرح، شاعری کا آغاز بھی بچپن ہی سے ہو گیا اور خصوصی طور پر ڈرامےسے دلچسپی بھی۔ ایک روایت ہے کہ وہ بچوں کو اکٹھا کرکے اندرسبھا کھیلا کرتے۔
والد چاہتے تھے کہ بیٹا میونسپل کمیٹی میں ملازم ہوجائے لیکن بیٹا ڈرامہ نگاری کے علاوہ کچھ اور کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اِسی لیے، بھاگ کر ممبئی آگئے اور الفریڈ تھیٹریکل کمپنی میں بطور ڈراما نگار ملازمت اختیار کر لی۔ اور یوں 20 برس کی عمر میں انہوں نے اس کمپنی کے لیے پہلا کمرشل ڈرامہ ’’مریدشک‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔
اِس کے بعد، آغا حشر آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔
آپ کے چند مشہور ڈراموں میں شہید ناز، صید ہوس، سفید خون، دل کی پیاس، خواب ہستی، خوبصورت بلا ، یہودی کی لڑکی، پہلا پیار، آنکھ کا نشہ اور ترکی حور شامل ہیں۔ آپ نے خاموش فلموں میں اداکاری بھی کی۔
آغا حشر نے سنہ1924 میں اپنی تھیٹریکل کمپنی کی بنیاد رکھی اور کئی ڈرامے سٹیج کیے، فلموں کے لیے کہانیاں لکھیں اور 1934ء میں اپنی فلم کمپنی بنا کر رستم سہراب بنانے کا اعلان کیا۔ مگر بنا نہ پائے۔
آغا حشر کا پہلا با ضابطہ ڈرامہ مرید شک اور آخری دل کی پیاس ہے۔ انہوں نے اس دوران کل 33 ڈرامے لکھے انہیں انڈین شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔
آغا حشر چونکہ شاعر بھی تھے۔ اپنے ڈراموں میں نظموں اور غزلوں کے علاوہ انہوں نے قومی اور ملی موضوعات پر کامیاب اور پرجوش نظمیں بھی لکھیں، خاص طور پرشکریہ یورپ اور موج زم زم کو نقادوں نے بہت سراہا۔
آغا حشر بیمار ہو کر علاج کی غرض سے لاہور آئے اور یہاں حشر پکچرز کی بنیاد ڈالی اور بھیشیم پتامہ کی ریہرسل اور شوٹنگ شروع کر دی۔ لیکن اس سے قبل کہ اسے مکمل کر پاتے، 28 اپریل 1935ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اورمیانی صاحب لاھور میں سپردخاک ہوئے۔
ظاہر ہے مرگ حشر سے راز دوامِ حشر
یعنی کلامِ حشر سے ہے زندہ نامِ حشر