خطاطی کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ ایک اسلامی آرٹ ہے لیکن یہ فن تحریر دنیا کی تقریباً ہر زبان اور ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد انور بھی اسے صرف اسلامی فن تحریر نہیں سمجھتے اور یہ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ایک اچھوتے انداز اور نئی جہت کو متعارف کرایا ہے۔
انھوں نے ہندی اور اردو زبان کو خطاطی کے ذریعے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ہندی یعنی دیوناگری رسم الخط اور اردو کے نستعلیق رسم الخط کو ملا کے اس طرح لکھا ہے کہ جو لفظ لکھا جا رہا ہے اس کی شکل بھی نظر آئے اس کو نام دیا ہے سام روپ رچنا، یہ سنسکرت اصطلاح ہے۔ سام روپ کا مطلب ایک جیسی چیز اور رچنا کا مطلب آرٹ ورک یا کریٹیویٹی۔‘‘
مجموعی طور پر انھوں نے 80فن پارے تیار کیے ہیں جو ہندی اور اردو کے تمام حروف تہجی کا احاطہ کرتے ہیں۔ فن کی اس صنف کو ڈاکٹر انور نے سام روپ رچنا کا نام دیا ہے جو ان کے بقول دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے جسے فروغ دے کر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی کوششوں کو تقویت دی جاسکتی ہے۔
’’ کوشش کی ہے اس آرٹ ورک کے ذریعے کہ ہم جو اس ریجن میں دوری ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ایک اسکرپٹ کسی ایک مذہب سے وابستہ ہے اور دوسری دوسرے مذہب سے وابستہ ہے توایسی بات نہیں ہے۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا زبان بولنے والے کا مذہب ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر انور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اپنی اس نئی اختراع سے مختلف رسم الخط کی حامل دنیا کی اس واحد ہم آواز بولی کو فروغ دینے کی وکالت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’انڈیا کی فلمز دیکھتے ہیں یہاں کے ڈرامے وہاں دیکھے جاتے ہیں 100 فیصد سمجھے جاتے ہیں صرف یہ ہے کہ صرف رسم الخطوں کے نہ جاننے کی وجہ سے یہ دوری ہے اور شاید اردو بولنے اور لکھنے والے جسے اردو آتی ہے اس کے لیے دنیا میں سب سے آسان ترین زبان یا رسم الخط سیکھنے کے لیے وہ ہندی ہے کیوں کہ اس نے زبان نہیں سیکھنی اسے چند الفاظ پہچاننے ہیں اور اسی طرح ہندی بولنے والا ہے وہ اردو کے چند حروف اگر سمجھ جائے گا تو وہ سب پڑھ سکتا ہے۔ مطلب دوری جو ہے وہ صرف غلط فہمیوں کی وجہ سے اور جو ہمارا ایک سیاسی پس منظر ہے خطے کا اس وجہ سے ۔ مگر اب وقت ہے کہ اسے اجاگر کیا جائے کہ یہ ایک زبان ہے اور یہی ہماری قوت ہے۔‘‘
ڈاکٹر انور کہتے ہیں کہ مذہبی اور لسانی منافرت کو فروغ دینے والوں کو اس بات کو بھی یقیناً مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں بھی ہندو برادری آباد ہے اور ان کے جذبات و احساسات کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔