آج متحدہ عرب امارات میں ایک بین المذاہب کانفرنس ہوئی۔ جس میں پوپ فرانسس۔ مصر کی جامعہ الاازہر کے سب سے بڑے امام شیخ احمد الطیب، یہودی مذہب، ہندو دھرم، بودھ مت اور دوسرے مذاہب کے رہنماوں نے شرکت کی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پوپ نے جزیرہ نما عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس قسم کے اجتماعات سے بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، اس بارے میں وائس آف امریکہ ارود سروس کے قمر عباس جعفری نے ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر زاہد بخاری اور بفلو یونیورسٹی کے پروفیسر فیضان الحق سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ کسی ایک کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ تاہم یہ ایک اچھی بات ہے کہ نائن الیون کے بعد سے یہ ایک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل عام طور سے مذہبی رہنما اس قسم کے اجتماعات کے معاملے میں تامل سے کام لیتے تھے۔ لیکن اب یہ سلسلہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک اس میں زیادہ حصہ لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا رجحان ہے کہ دنیا کے سارے مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ مل بیٹھیں۔ اور ظلم، جبر، غربت اور ان جنگوں کے خلاف مشترکہ آواز بھی بلند کریں۔ ان مسائل پر توجہ دینے کے سلسلے میں اس قسم کے اجتماعات بہت اہم ہیں
پروفیسر فیضان کا کہنا تھا کہ آج دنیا میں مذہب کے نام پر انسانوں کا استحصال کیا جاتا ہے حالانکہ کوئی مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسری جانب مذہبی حلقوں میں بعض گروپ انتقام کی منطق اپناتے ہیں اور یہ رجحان خطرناک حد تک سرایت کر چکا ہے۔ اسے ختم کرنا وقت کی ایک بڑی ضرورت بن چکا ہے اور اب دنیا نفرت کے اس طوفان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا اس مذہبی انتہاپسندی کے رجحان کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے اس قسم کے بین المذاہب اجتماعات انتہائی ضروری ہیں۔ اور بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے اس کے نتیجے میں جو تحریک پیدا ہو گی اس سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو فائدہ پہنچے گا اور مذہبی اختلافات مل جل کر کام کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکیں گے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔