امریکہ میں ہر رنگ ونسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، جن کی ایک بڑی اکثریت ایک دوسرے کی شہری اور مذہبی آزادیوں کا احترام کرنا پسند کرتی ہے ۔
امریکہ میں آباد مسلمان کمیونٹی کے بارے میں گیارہ ستمبر2001ءکے واقعات کے بعدکچھ غلط فہمیوں نے جنم لیا ۔جبکہ یہاں کچھ علاقوں میں پہلے ہی سے مسائل موجودتھے۔ جس کی ایک مثال امریکی ریاست مشی گن کا شہر ڈیٹرائٹ ہے جہاں مشرق وسطیٰ سے آکر آباد ہونے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادآباد ہے۔وہاں کی مسلمان اور یہودی کمیونٹیز کے درمیان اختلاف کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ لیکن اب ربائی رچرڈ نوڈیل جیسے کچھ مذہبی راہنماہم آہنگی کے فروغ کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ دس سال کے دوران امریکہ میں بین المذاہب مکالمے کا سلسلہ تیزی سے آگے بڑھا ہے ۔گیارہ ستمبر کی دہشت گردی کی برسی کے موقع پر بھی واشنگٹن میں کئی بین المذاہب اجتماعات ہوئے ۔ جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں اور شہریوں نے شرکت کی ۔ریاست ورجینیا کے ایک اسلامک سنٹر ایڈمزکے امام محمد ماجد کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت کے تحت بننے والی تنظیمیں ہیں ۔
مگر امریکہ میں اب درس و تدریس کے ادارے بھی بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں تینوں ابراہیمی مذاہب ، یہودیت، اسلام اور مسیحیت سے تعلق رکھنے والے مذہبی راہنماؤں کی بین المذاہب تربیت کے لئے کلیئرماؤنٹ اسکول آف تھیولوجی میں گزشتہ سال ایک کورس ترتیب دیا گیا ، جس کے تحت تعلیمی ڈگری کے ساتھ ساتھ مستقبل کے پادری ، امام اور ربائی کو بین المذاہب ہم آہنگی بڑھانے کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
گیارہ ستمبر کے بعد خود مسلمان کمیونٹی میں بھی احساس پیدا ہوا کہ انہیں امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے باقی مذاہب سے تعلق رکھنے والی کمیوننیٹیز سے میل جول بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے امریکی سمجھتے ہیں کہ 2001 ء کے حملوں کے بعد ان میں اسلام کے بارے میں جاننے کے جستجو پیدا ہوئی ہے۔
یہاں پر موجود مختلف کمیونیٹیز کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے گیارہ ستمبر کو دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تمام کمیونیٹیز مل کر بھائی چارے اور باہمی احترام کے فروغ کے لیے کام کریں۔