رسائی کے لنکس

’بین المذاہب ہم آہنگی امریکی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے‘


جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار کا ایک پہلو بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے سلسلے میں 2003ء میں بنائے جانے والی ڈاکومینٹری ’گاڈ اینڈ اللہ نیڈ ٹو ٹوک‘ کی سکیرنگ بھی تھی

سنہ 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد گذشتہ ایک دہائی میں امریکہ بھر میں بہت سی تنظیمیں اور افراد اپنی اپنی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے پھیلاؤ کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کاوشوں کا مقصد امریکہ کو ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جہاں ہر رنگ و نسل و مذہب کے لوگ بغیر کسی تفریق کے اپنے حقوق آزادانہ طور پر استعمال کر سکیں۔

گذشتہ دنوں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ہونے والے دو روزہ سیمینار کے انعقاد کا بنیادی خیال بھی یہی تھا۔ ’دی پریذیڈنٹس انٹر فیتھ اینڈ کمیونٹی سروس کیمپس چیلنج‘ نامی اس سیمینار میں امریکہ بھر سے ممتاز شخصیات کو مدعو کیا گیا اور مختلف پروگرامز میں انہیں طالبعلموں کے ساتھ گفتگو کا موقع مہیا کیا گیا، تاکہ طالبعلم بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق اپنے سوالات اور ابہام کا جواب پا سکیں۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کا ایک پہلو
2003ء میں بنائی جانے والی ڈاکومینٹری ’گاڈ اینڈ اللہ نیڈ ٹو ٹوک‘ (خدا اور اللہ کو ہم کلام ہونا چاہیئے) کی سکیرنگ بھی تھی۔ ایک گھنٹے کی اس نشست میں ڈاکومینٹری دکھائی گئی جس کے بعد ڈاکومینٹری میکر رُوتھ شیرون سے اس ڈاکومینٹری کے بارے میں گفتگو کی گئی۔

’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں، رُوتھ شیرون کا کہنا تھا کہ، ’مجھے یہ ڈاکومینٹری بنانے کا خیال سڑک پر لگے ایک بل بورڈ کو دیکھ کر آیا جس پر لکھا تھا ’گاڈ اینڈ اللہ نیڈ ٹو ٹوک‘۔ پھر میں نے اس بل بورڈ کے مالک کو ڈھونڈا اور ان سے اجازت لی کہ میں اس عنوان سے ایک ڈاکومینٹری بنانا چاہتی ہوں۔ پھر میں مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملی اور ان سے ان کے مذاہب کے بارے میں معلومات حاصل کیں‘۔

روتھ کہتی ہیں کہ، ’اس ڈاکومینٹری کے لیے میں لاس اینجلس میں اسلامک سینٹر گئی اور ان کی مختلف تقریبات میں حصہ لیا۔ مجھے یہ سب بہت مختلف اور اچھوتا لگا اور مجھے لگا کہ یہ ضروری ہے کہ یہ پیغام پورے امریکہ تک پہنچے کہ ہر مذہب کی بنیاد امن ہے اور امریکہ میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کی بجائے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی ہم اسے ایک بے مثال معاشرہ بنا سکتے ہیں‘۔

XS
SM
MD
LG