اسلام آباد —
پاکستان میں دہشت گرد مذہب و مسلک سے قطع نظر مساجد، امام بارگاہوں، مزارات اور اقلیتوں پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن اتوار کو پشاور میں ’’آل سینٹس چرچ‘‘ پر ہونے والے خودکش حملے کو پاکستان میں عیسائی برادری کے خلاف سب سے ہلاکت خیز حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پشاور اس خطے کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی آباد ہیں اور برطانوی راج میں یہاں عیسائیوں کی آباد کاری بھی شروع ہوئی۔
دہشت گردی کے تازہ واقعے کا شکار ہونے والا چرچ 1883ء میں شہر کے گنجان اور قدیم علاقے کوہاٹی گیٹ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا طرز تعمیر روایتی گرجا گھروں سے بالکل مختلف تھا۔
سید سجاد علی شاہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور ان کا خاندان کئی نسلوں سے اسی علاقے میں آباد ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ انگریزوں نے یہاں بہت سے اسکول اور گرجا گھر بنائے۔
’’یہاں افغانستان کے بادشاہ کے ایک گورنر امیر حبیب خان کا گھر تھا جس میں انگریزوں نے ایک مشن اسکول بنایا اور اس کے سامنے باغیچے میں یہ چرچ تعمیر کیا۔ چرچ بنانے والوں میں ایک مسلمان بھی تھا تو اس نے یہ مشورہ دیا کہ اس کی تعمیر مسجد کی طرز پر کی جائے۔ اس کے ڈیزائن میں گنبد اور محراب اور پھر ان پر لکھائی بھی ویسے ہی کی گئی۔‘‘
اس کا مقصد سجاد شاہ کے بقول قرب و جوار میں آباد مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور یک جہتی کو فروغ دینا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ یہاں آباد عیسائی برداری نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کی اور ایک زمانے میں ان کے بقول لیڈی ریڈنگ اسپتال میں تمام طبی عملہ اسی برادری سے تعلق رکھنے والا ہوا کرتا تھا۔
سجاد شاہ بتاتے ہیں کہ دہشت گردانہ واقعات کے باوجود علاقے میں اقلیتوں کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا رویہ امن و آشتی اور بھائی چارے پر مبنی رہا اور اس تازہ واقعے پر عیسائی برداری کے علاوہ مسلمان اہل علاقہ بھی بہت افسردہ ہیں۔
صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی ونگ کے صدر ساجد اسحاق کہتے ہیں عیسائی برادری پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں لیکن آل سینٹس چرچ میں پیش آنے والے واقعے نے پہلے سے عدم تحفظ کی شکار اقلیتی برداری کو مزید خوفزدہ کر دیا ہے۔
ساجد اسحاق طویل عرصے سے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں اور اُن کا کہنا تھا کہ ایسے حملے ملک میں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان دوریوں کا سبب بنیں گے۔
پشاور اس خطے کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی آباد ہیں اور برطانوی راج میں یہاں عیسائیوں کی آباد کاری بھی شروع ہوئی۔
دہشت گردی کے تازہ واقعے کا شکار ہونے والا چرچ 1883ء میں شہر کے گنجان اور قدیم علاقے کوہاٹی گیٹ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا طرز تعمیر روایتی گرجا گھروں سے بالکل مختلف تھا۔
سید سجاد علی شاہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور ان کا خاندان کئی نسلوں سے اسی علاقے میں آباد ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ انگریزوں نے یہاں بہت سے اسکول اور گرجا گھر بنائے۔
’’یہاں افغانستان کے بادشاہ کے ایک گورنر امیر حبیب خان کا گھر تھا جس میں انگریزوں نے ایک مشن اسکول بنایا اور اس کے سامنے باغیچے میں یہ چرچ تعمیر کیا۔ چرچ بنانے والوں میں ایک مسلمان بھی تھا تو اس نے یہ مشورہ دیا کہ اس کی تعمیر مسجد کی طرز پر کی جائے۔ اس کے ڈیزائن میں گنبد اور محراب اور پھر ان پر لکھائی بھی ویسے ہی کی گئی۔‘‘
اس کا مقصد سجاد شاہ کے بقول قرب و جوار میں آباد مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور یک جہتی کو فروغ دینا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ یہاں آباد عیسائی برداری نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کی اور ایک زمانے میں ان کے بقول لیڈی ریڈنگ اسپتال میں تمام طبی عملہ اسی برادری سے تعلق رکھنے والا ہوا کرتا تھا۔
سجاد شاہ بتاتے ہیں کہ دہشت گردانہ واقعات کے باوجود علاقے میں اقلیتوں کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا رویہ امن و آشتی اور بھائی چارے پر مبنی رہا اور اس تازہ واقعے پر عیسائی برداری کے علاوہ مسلمان اہل علاقہ بھی بہت افسردہ ہیں۔
صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی ونگ کے صدر ساجد اسحاق کہتے ہیں عیسائی برادری پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں لیکن آل سینٹس چرچ میں پیش آنے والے واقعے نے پہلے سے عدم تحفظ کی شکار اقلیتی برداری کو مزید خوفزدہ کر دیا ہے۔
ساجد اسحاق طویل عرصے سے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں اور اُن کا کہنا تھا کہ ایسے حملے ملک میں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان دوریوں کا سبب بنیں گے۔