واشنگٹن —
اقوام ِ متحدہ کی کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معائنہ کاروں کی ٹیم ہفتے کے روز شام سے واپس چلی گئی ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی یہ ٹیم شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی تفتیش کر رہی تھی۔
اقوام ِ متحدہ کے معائنہ کاروں کے شام سے نکل جانے کے بعد امریکہ کے لیے شام پر حملہ کرنے اور صدر بشار الاسد کو سزا دینے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ، جس کے بحری بیڑے شام کے قریب پہنچ چکے ہیں، شام کے صدر بشار الاسد کو کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے پر سزا دینے کے لیے ’محدود‘ کارروائی کرے گا۔ شامی حکومت کی جانب سے اس کیمیاوی حملے میں 1,429 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’ہمارے لیے ایک ایسی دنیا قابل ِ قبول نہیں جہاں بڑے پیمانے پر زہریلی اور کیمیاوی گیس استعمال کرکے خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کو ختم کر دیا جائے۔‘
شام کے شہر دمشق میں 21 اگست کو ہونے والے ایک حملے میں شامی حکومت نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری نے شام کے حوالے سے گذشتہ روز ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ، ’دمشق میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی سزا دی جانی چاہیئے۔‘
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اسے اقوام ِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج نے کیمیاوی حملہ کیا۔ اقوام ِ متحدہ کی ٹیم کا کام اس بات کا تعین ہے کہ آیا کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے گئے نہ کہ یہ کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے؟
رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شام پر فوجی کارروائی کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ صدر اوباما نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ عراق اور افغانستان میں امریکی تاریخ کی طویل ترین 12 سال کی جنگوں کے بعد امریکی عوام جنگ سے تھک چکے ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کے معائنہ کاروں کے شام سے نکل جانے کے بعد امریکہ کے لیے شام پر حملہ کرنے اور صدر بشار الاسد کو سزا دینے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ، جس کے بحری بیڑے شام کے قریب پہنچ چکے ہیں، شام کے صدر بشار الاسد کو کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے پر سزا دینے کے لیے ’محدود‘ کارروائی کرے گا۔ شامی حکومت کی جانب سے اس کیمیاوی حملے میں 1,429 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’ہمارے لیے ایک ایسی دنیا قابل ِ قبول نہیں جہاں بڑے پیمانے پر زہریلی اور کیمیاوی گیس استعمال کرکے خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کو ختم کر دیا جائے۔‘
شام کے شہر دمشق میں 21 اگست کو ہونے والے ایک حملے میں شامی حکومت نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری نے شام کے حوالے سے گذشتہ روز ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ، ’دمشق میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی سزا دی جانی چاہیئے۔‘
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اسے اقوام ِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج نے کیمیاوی حملہ کیا۔ اقوام ِ متحدہ کی ٹیم کا کام اس بات کا تعین ہے کہ آیا کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے گئے نہ کہ یہ کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے؟
رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شام پر فوجی کارروائی کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ صدر اوباما نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ عراق اور افغانستان میں امریکی تاریخ کی طویل ترین 12 سال کی جنگوں کے بعد امریکی عوام جنگ سے تھک چکے ہیں۔