فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی ویب سائٹس کے ذریعے اپنا نیٹ ورک بنانا اور ایک دوسرے کو خبر کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔اور انٹرنیٹ کی مدد سے ان ممالک کی خبریں بھی فوراً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں جہاں سینسر کی پابندیاں عائد ہیں۔آزادی صحافت میں آج انٹر نیٹ ایک اہم کردار حاصل کرچکاہے۔
انٹرنیٹ اور دیگر جدید ڈیجیٹل آلات کی طاقت کا مظاہرہ ہم نے گذشتہ سال ایران ، لاطینی امریکہ اور دنیا کے دیگر مقامات پر ہونے والے مظاہروں میں دیکھا تھا۔
ان مظاہروں میں شریک بہت سے بلاگرزنے حال ہی میں امریکہ میں سابق صدر جارج بش کے نام پرسدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں قائم کیے گئے انسٹی ٹیوٹ میں شرکت کی، جس کا افتتاح سابق صدر جارج بش نے کیا۔ یہاں ان بلاگرز کو انٹرنیٹ کے ماہرین اور بہت سے سابق اور حالیہ امریکی عہدے داروں سے ملاقات کا بھی موقع ملا۔
فلائٹ کینسل ہونے کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکنے والے دو بلاگرز نے انٹرنیٹ کی ویب سائٹ سکائپ کے ذریعے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
بلاگر اولگ کوزلوسکی نے روس میں جاری اس تحریک پر گفتگوکی جس میں بلاگرز اس خوف سے بے نیاز ہو کر، کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔
چینی بلاگر آئساک مائیوکا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں سینسرکی پابندیاں بلاگرز کی ابھرتی ہوئی آوازوں کو پکڑنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ مگر ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تحقیق دان ایتھن زوکرمین کا کہنا ہے کہ چین میں سینرسے وابستہ عہدے دار انٹرنیٹ پر موجود مواد کو زبردستی بلاک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سے وہ ایک متبادل پلیٹ فارم بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
چین میں انٹرنیٹ صارفین حکومت کی پسند کی ویب سائیٹ baidu.com پر جا سکتے ہیں۔ چینی حکومت youtube کی ویڈیوز کو بلاک تو کرتی ہے مگر ساتھ ہی اسکا متبادل youku.com کی صورت میں دیتی ہے۔ جس پر سیاسی مواد شائع نہیں کیا جاتا۔
روبرٹا گیورا ایک نجی ادارے فریڈم ہاؤس سے وابستہ ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ پر مظاہروں کی تصاویر دیکھنے کے بعد انٹرنیٹ کی بینڈ ورتھ کو کم کرادیا۔
گیورا کا کہنا ہے کہ ہم نے گذشتہ سال جون میں ہونے والے انتخابات کے بعد دیکھا کہ وہ انٹرنیٹ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جو لوگ بھی آن لائن یا پھر اپنے موبائل کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں وہ انہیں محض چند ہی گھنٹوں میں گرفتار کر لیتے ہیں۔
شام سے تعلق رکھنے والے بلاگر احد الہندی کو اس کے انٹرنیٹ پر بھیجے گئے پیغامات کی پاداش میں ایک ماہ کی جیل ہوئی۔ اب وہ امریکی ریاست میری لینڈ میں رہتے ہیں اور جمہوری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں بلاگرز کو ابھی بھی پابندیوں کا سامنا ہے۔
وینزویلا سے تعلق رکھنے والے روڈریگو ،وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کے خلاف بلاگز لکھتے ہیں۔ انہوں نے دیگر چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر سینسر شپ سے آزاد دنیا نامی ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری نمائندگی بیس سے زیادہ ممالک میں ہے۔ اور ہم سب حق ِ اظہار کی آزادی کو بنیادی حق مانتے ہیں اور اس پر لکھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک مرتبہ نے اس پر سمجھوتہ کرلیا تو پھر آپ دیگر انسانی حقوق سے بھی سمجھوتہ کریں گے۔
کولمبیا سے تعلق رکھنے والے بلاگر آسکر مورلی کا کہنا ہے کہ فیس بک کے ذریعے لاکھوں لوگوں سے تعلق اور انہیں مارچ کے لیے منظم کرنے نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جب یہ کیا اور لوگوں کی طاقت کا مظاہرہ دیکھا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہ کوشش جاری رکھ کر اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں۔
ڈیوڈ کینز کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے سیاسی منظرنامہ بدلا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے لوگو ں کو جو طاقت دی ہے وہ ہم نے انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ آپ واقعی ایک وقت میں دنیا کے لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
مگر انٹرنیٹ کی طاقت کے باوجود اس کانفرنس میں شریک بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ سیاسی تبدیلیوں کے لیے اصلی زندگی میں لوگوں سے ملاقات بہت ضروری ہے۔