بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کے دارالحکومت امپھال میں طلبہ اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان منگل کی رات میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق تصادم میں کم از کم 45 طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔ مزید احتجاج اور تشدد کے اندیشے کے پیشِ نظر سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی بڑھا دی گئی ہے۔
ریاستی حکومت نے نظم و نسق کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر پوری ریاست کو ’شورش زدہ‘ قرار دے دیا ہے۔
اس نے ریاست کے پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے والے قانون ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورایکٹ‘ (افسپا) کے نفاذ میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی رپورٹ کے مطابق 19 پولیس اسٹیشنز کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
ریاستی حکومت نے ایک بار پھر موبائل انٹرنیٹ خدمات بند کر دی ہیں۔ یہ پابندی یکم اکتوبر تک جاری رہے گی۔
وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ہفتے کو انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
میتی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک 17 سالہ طالبہ اور ایک 20 سالہ طالبِ علم کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد طلبہ نے منگل کو احتجاج شروع کر دیا تھا۔
ایک تصویر میں دونوں خوف کے عالم میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پیچھے اسلحہ بردار افراد موجود ہیں۔ جب کہ دوسری تصویر میں ان کی لاشیں ایک پہاڑی پر پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق دونوں دوست تھے اور وہ چھ جولائی سے لاپتا تھے۔ ہفتے کے روز موبائل انٹرنیٹ پر عائد پابندی اٹھا لیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ تصاویر وائرل ہو گئیں۔ مقتولین کے اہلِ خانہ کو شبہ ہے کہ کوکی برادری کے مسلح افراد نے اغوا کرنے کے بعد ان کا قتل کر دیا۔
اعلیٰ تفتیشی ایجنسی ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) کے اسپیشل ڈائریکٹر اجے بھٹناگر اسٹوڈنٹس کی موت کی جانچ کے لیے منی پور روانہ ہو گئے ہیں۔
ریاستی حکومت نے 25 ستمبر کو ایک بیان جاری کر کے کہا تھا کہ ریاستی پولیس مرکزی ایجنسیوں کے اشتراک سے اس معاملے کی جانچ کر رہی اور ان دونوں کے لاپتا ہونے اور ان کے اغوا کاروں کی شناخت معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اغوا کاروں کو پکڑنے کے لیے تلاشی مہم جاری ہے۔
اس سے قبل ریاستی حکومت نے اگست میں سپریم کورٹ میں ایک اسٹیٹس رپورٹ جمع کرکے بتایا تھا کہ ان دونوں طلبہ کو کوکی مسلح شرپسندوں نے اغوا کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ منی پور میں چھ مئی کو میتی اور کوکی برادریوں میں تصادم شروع ہوا تھا۔ جس کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر نسلی فساد برپا ہوا اور کرفیو نافذ کرنا پڑا۔
فساد کے نتیجے میں کم از کم 175 افراد ہلاک اور چھ سو سے زائد زخمی ہوئے جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے اور وہ پناہ گزیں کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
میتی برادری عام طور پر ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور وہ امپھال کے میدانی علاقوں میں آباد ہے۔ جب کہ کوکی قبائل ہیں اور وہ پہاڑوں پر آباد ہیں۔
منی پور ہائی کورٹ کی جانب سے میتی برادری کو شیڈولڈ ٹرائب (قبائل) کا درجہ دینے کی ریاستی حکومت کو ہدایت کے بعد کوکی برادری نے احتجاج شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں فساد برپا ہو گیا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے منی پور ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ لیکن اس پر حکم امتناع جاری کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ یہ معاملہ ڈویژن بینچ میں زیرِ سماعت ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن، سیاست داں اور تجزیہ کار تشدد پر قابو پانے میں ناکامی کے لیے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کو برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔
بھارت کی اصل اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے بدھ کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی صدر ملک ارجن کھڑگے نے ایکس یعنی سابق ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ شمال مشرق کی ریاست منی پور میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق 147 روز سے منی پور کے عوام اذیت میں مبتلا ہیں لیکن وزیرِ اعظم مودی کو منی پور کا دورہ کرنے کا ابھی تک وقت نہیں ملا۔
انسانی حقوق کے سینئر کارکن ڈاکٹر رام پنیانی کا کہنا ہے کہ منی پور میں کوکی اور میتی برادری کی لڑائی بہت پرانی ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے میتی برادری کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دیے جانے کے خلاف جو احتجاج شروع ہوا اس نے بہت سنگین شکل اختیار کر لی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں کی ناکامی ہے کہ وہ ابھی تک صورتِ حال پر قابو نہیں پا سکے۔
اُنہوں نے اس صورتِ حال کے لیے حکومت کو ذمہ دار قرار دیا اور وزیرِ اعظم کے ابھی تک منی پور کا دورہ نہ کرنے پر تنقید کی۔
حکومت نے وزیر اعلیٰ کو برطرف کرنے کا مطالبہ بہت پہلے مسترد کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا تھا کہ کسی وزیر اعلیٰ کو اس وقت برطرف کیا جاتا ہے جب وہ تعاون نہ کر رہا ہو۔
یاد رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم سے منی پور کی صورت حال پر بیان دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ لیکن جب انھوں نے تفصیلی بیان نہیں دیا تو اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں پیش کر دی۔
تحریک عدم اعتماد پر 10 اگست کو دن بھر ہونے والی بحث کے بعد اپوزیشن ارکان کے واک آؤٹ کے درمیان ووٹنگ کرائی گئی اور زبانی ووٹنگ میں تحریک ناکام ہو گئی تھی۔
فورم