18 کڑوڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان میں ہر برس40 سے50 لاکھ بچے آنکھ کھولتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے 40 سے 50 ہزار بچے دل کی مختلف بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا کہنا ہے چلڈرن اسپتال لاہور کے کارڈیالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کا۔
پاکستان میں بچوں میں دل کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق آبادی کے تناسب سے بھارت، چین اور پاکستان میں دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایسے بچوں کے لیے پاکستان میں فی الحال سہولتوں کا فقدان ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر صرف لاہور کا ’چلڈرن اسپتال‘ وہ واحد ادارہ ہے جہاں بچوں کے دل کے امراض کا علاج اور آپریشن کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ ایسے ادارے ہیں جو بڑوں میں دل کے امراض کا علاج کرتے ہیں اور وہاں کچھ بچوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جبکہ نجی سطح پر کراچی میں ’آغا خان‘ اور لاہور میں اتفاق اسپتال موجود ہیں۔ سرکاری سطح پر بچوں کے دل کے آپریشن کا خرچہ ، حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مفت علاج کے اعلانات کے باوجود ایک لاکھ کے قریب ہے جبکہ نجی اسپتالوں میں یہی آپریشن 4 سے 5 لاکھ میں کیا جاتا ہے۔ اور دونوں ہی رقوم غریب آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں مگر کچھ فلاح و بہبود کے ادارے ایسے میں ان غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔
کے مطابق اس وقت پورے ملک میں صرف 2 سے 3 ہزار بچوں کا آپریشن ہی ہر سال ممکن ہو پاتا ہے جبکہ ضرورت 10 ہزار بچوں کے آپریشن کی ہے۔ چلڈرن اسپتال لاہور ، گذشتہ برس صرف 500 بچوں کی اوپن ہارٹ سرجری، جبکہ صرف 300 بچوں کا علاج اینجیو گرافی سے ممکن بنا سکا، یہی وجہ ہے کہ یہاں دل کے علاج کی غرض سے آنے والے بچوں کے انتظار کی فہرست 3000 سے بھی زیادہ ہے جبکہ ایسے بچے جن کو آپریشن کی فوری ضرورت ہے ان کی لسٹ بھی سینکڑوں کا نمبر تجاوز کر چکی ہے۔
اس سب کی وجہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق یہ ہے کہ دل کی بیماریوں میں مبتلا بچے حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے سرکاری سطح پر بچوں کی دل کے امراض کا کوئی سینٹر ہی موجود نہیں اور جو سینٹر چلڈرن اسپتال میں موجود ہے وہ صرف ایک آپریشن تھیٹر اور دس بیڈ کے آئی سی یو پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں اس وقت بچوں کے دل کا آپریشن کرنے کے لیے صرف 7 سرجنز اور دل کی بیماری کی تشخیص کے لیے 12 کارڈیالوجسٹ اور ایک پروفیسر دستیاب ہیں جو وہ خود ہیں۔
ڈاکٹر مسعود کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف نے گذشتہ دور حکومت میں چلڈرن اسپتال میں بچوں میں دل کے امرض کے علاج کے لیے سینٹر قائم کرنے کی منظوری دی، مگر اس کے بعد سے اب تک بظاہراس معاملہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ چلڈرن اسپتال میں زیر علاج ایسے دل کے مریض بچے جن کی اوپن ہارٹ سرجری کی جاتی ہے ڈاکٹروں کی ان تھک کوششوں کے باوجود ان میں سے سالانہ 8 فیصد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دل کے مرض میں مبتلا زیادہ سے زیادہ بچوں کو تکلیف اور موت سے بچایا جاسکتا ہے اگر حکومت مناسب انفراسٹرکچر فراہم کر دے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق ایک چھوٹے سے میڈیکل ٹیسٹ جسے ’فیٹل ایکو کارڈیو گرافی‘ کہا جاتا ہے، کے ذریعے والدین حمل کے 15 یا 16 ویں ہفتے میں یہ پتا لگاسکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والا ان کا بچہ دل کے کسی بھی قسم کے مرض میں تو مبتلا نہیں ہے اور بعض نقائص کا علاج تو پیدائش سے پہلے بھی ممکن ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق سے کی گئی گفتگو سننے کے لئیے نیچے دیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجئیے۔
پاکستان میں بچوں میں دل کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق آبادی کے تناسب سے بھارت، چین اور پاکستان میں دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایسے بچوں کے لیے پاکستان میں فی الحال سہولتوں کا فقدان ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر صرف لاہور کا ’چلڈرن اسپتال‘ وہ واحد ادارہ ہے جہاں بچوں کے دل کے امراض کا علاج اور آپریشن کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ ایسے ادارے ہیں جو بڑوں میں دل کے امراض کا علاج کرتے ہیں اور وہاں کچھ بچوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جبکہ نجی سطح پر کراچی میں ’آغا خان‘ اور لاہور میں اتفاق اسپتال موجود ہیں۔ سرکاری سطح پر بچوں کے دل کے آپریشن کا خرچہ ، حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مفت علاج کے اعلانات کے باوجود ایک لاکھ کے قریب ہے جبکہ نجی اسپتالوں میں یہی آپریشن 4 سے 5 لاکھ میں کیا جاتا ہے۔ اور دونوں ہی رقوم غریب آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں مگر کچھ فلاح و بہبود کے ادارے ایسے میں ان غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔
کے مطابق اس وقت پورے ملک میں صرف 2 سے 3 ہزار بچوں کا آپریشن ہی ہر سال ممکن ہو پاتا ہے جبکہ ضرورت 10 ہزار بچوں کے آپریشن کی ہے۔ چلڈرن اسپتال لاہور ، گذشتہ برس صرف 500 بچوں کی اوپن ہارٹ سرجری، جبکہ صرف 300 بچوں کا علاج اینجیو گرافی سے ممکن بنا سکا، یہی وجہ ہے کہ یہاں دل کے علاج کی غرض سے آنے والے بچوں کے انتظار کی فہرست 3000 سے بھی زیادہ ہے جبکہ ایسے بچے جن کو آپریشن کی فوری ضرورت ہے ان کی لسٹ بھی سینکڑوں کا نمبر تجاوز کر چکی ہے۔
اس سب کی وجہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق یہ ہے کہ دل کی بیماریوں میں مبتلا بچے حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے سرکاری سطح پر بچوں کی دل کے امراض کا کوئی سینٹر ہی موجود نہیں اور جو سینٹر چلڈرن اسپتال میں موجود ہے وہ صرف ایک آپریشن تھیٹر اور دس بیڈ کے آئی سی یو پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں اس وقت بچوں کے دل کا آپریشن کرنے کے لیے صرف 7 سرجنز اور دل کی بیماری کی تشخیص کے لیے 12 کارڈیالوجسٹ اور ایک پروفیسر دستیاب ہیں جو وہ خود ہیں۔
ڈاکٹر مسعود کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف نے گذشتہ دور حکومت میں چلڈرن اسپتال میں بچوں میں دل کے امرض کے علاج کے لیے سینٹر قائم کرنے کی منظوری دی، مگر اس کے بعد سے اب تک بظاہراس معاملہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ چلڈرن اسپتال میں زیر علاج ایسے دل کے مریض بچے جن کی اوپن ہارٹ سرجری کی جاتی ہے ڈاکٹروں کی ان تھک کوششوں کے باوجود ان میں سے سالانہ 8 فیصد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دل کے مرض میں مبتلا زیادہ سے زیادہ بچوں کو تکلیف اور موت سے بچایا جاسکتا ہے اگر حکومت مناسب انفراسٹرکچر فراہم کر دے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق ایک چھوٹے سے میڈیکل ٹیسٹ جسے ’فیٹل ایکو کارڈیو گرافی‘ کہا جاتا ہے، کے ذریعے والدین حمل کے 15 یا 16 ویں ہفتے میں یہ پتا لگاسکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والا ان کا بچہ دل کے کسی بھی قسم کے مرض میں تو مبتلا نہیں ہے اور بعض نقائص کا علاج تو پیدائش سے پہلے بھی ممکن ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق سے کی گئی گفتگو سننے کے لئیے نیچے دیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجئیے۔