گذشتہ دنوں ڈاکٹر مہرین فاروقی کی بطور آسٹریلین پارلیمنٹ ممبر کی تقرری کی خبر خوش دلی سے وصول کی گئی۔ آسٹریلیا کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک مسلمان خاتون کو پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانیوں کے لیے یہ خبر یوں بھی زیادہ دلچسپی کا باعث بنی کہ ڈاکٹر مہرین فاروقی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں۔
مہرین پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہیں اور سڈنی میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر منسلک ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مہرین فاروقی کی ذات کے کچھ مزید اور دلچسپ پہلو بھی ہیں۔
مہرین سیاستدان اور سول انجینئیر ہونے کے ساتھ ساتھ sustainability expert اور ایک community activist بھی ہیں۔ مہرین ان سبھی شعبوں کو بھرپور وقت دیتی ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے کام کرنا انہیں پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے واٹر مینیجمنٹ جیسے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ جس روز آسٹریلیا پہنچی تھیں اس کے دو روز بعد environmental engineering کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لے چکی تھیں۔ شعبہ ِ تدریس سے منسلک ہونے کی ایک وجہ ان کے والد بھی تھے جنہوں نے 1957ء میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سے ہی سول انجینیرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی۔ مہرین کے مطابق انہوں نے سیاست میں شاید اس لیے بھی قدم رکھا کہ ان کے دادا خلیفہ شجاع الدین لاہور کی پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر تھے۔
ڈاکٹر مہرین فاروقی کہتی ہیں کہ دس سال قبل انہوں نے آسٹریلیا کی سیاسی جماعت گرینز میں شمولیت یوں اختیار کی کہ گرینز کی پالیسیوں اور ان کے کام میں بہت مماثلت تھی۔ حال ہی میں سات خواتین میں سے گرینز کے سینکڑوں کارکنوں نے انہیں آسٹریلین پارلیمنٹ میں بطور ممبر منتخب کیا۔ مہرین ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے ایوان ِ بالا کے لیے رکن منتخب کی گئی ہیں اور ماحولیات، خواتین کے سٹیٹس، ٹرانسپورٹ اور ملٹی کلچرل ازم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔
مہرین کی تقرری کے بعد سے میڈیا میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا بطور مسلمان خاتون ان کے لیے آسٹریلیا کی سیاست میں جگہ بنانا آسان ہوگا یا نہیں؟ ۔۔۔ ڈاکٹر مہرین کا کہنا ہے کہ آسڑیلیا میں جمہوریت اور مذہب دو الگ شعبے ہیں اور یہ کہ انہیں آسٹریلین پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت گرینز کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ہے نہ کہ ان کے مذہبی عقائد کی ترجمانی کے لیے۔ مہرین کے مطابق ان کا مذہب اور عقیدہ بھی ان کی زندگی کا ایک اہم جزواور پہلو ہے لیکن وہ اسے اپنی سیاست سے الگ رکھنا پسند کریں گی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی مہرین اکیس برس پہلے پاکستان سے آسٹریلیا جا بسی تھیں۔ آسٹریلیا میں ایک عرصے سے رہنے کے باوجود پاکستان ان کے دل سے نکلا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شعبے کی مہارت کو اپنے تک محدود نہیں رکھنا چاہتی اور ہر کچھ عرصے بعد پاکستان جا کر مختلف شعبہ جات میں کبھی طلباء کی رہنمائی کرتی ہیں تو کبھی کسی این جی او کے ساتھ مل کر مختلف پروجیکٹس پر کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
بطور خاتون مہرین کے لیے یہ سفر کتنا مشکل رہا؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، ’عورت پاکستان کی ہو یا کہ آسٹریلیا کی، اسے معاشرے میں جگہ بنانے اور اپنا وجود منوانے کے لیے محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘ مہرین کہتی ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں 80ء کی دہائی میں اس وقت بطور انجینئیر نوکری کی، جب اس شعبے میں اکا دکا ہی خواتین کام کرتی تھیں۔ لیکن والدین اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی سے ہی ان کے لیے اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ممکن ہوسکا۔
مہرین سے گفتگو کی مزید تفصیل کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
مہرین پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہیں اور سڈنی میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر منسلک ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مہرین فاروقی کی ذات کے کچھ مزید اور دلچسپ پہلو بھی ہیں۔
مہرین سیاستدان اور سول انجینئیر ہونے کے ساتھ ساتھ sustainability expert اور ایک community activist بھی ہیں۔ مہرین ان سبھی شعبوں کو بھرپور وقت دیتی ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے کام کرنا انہیں پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے واٹر مینیجمنٹ جیسے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ جس روز آسٹریلیا پہنچی تھیں اس کے دو روز بعد environmental engineering کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لے چکی تھیں۔ شعبہ ِ تدریس سے منسلک ہونے کی ایک وجہ ان کے والد بھی تھے جنہوں نے 1957ء میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سے ہی سول انجینیرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی۔ مہرین کے مطابق انہوں نے سیاست میں شاید اس لیے بھی قدم رکھا کہ ان کے دادا خلیفہ شجاع الدین لاہور کی پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر تھے۔
ڈاکٹر مہرین فاروقی کہتی ہیں کہ دس سال قبل انہوں نے آسٹریلیا کی سیاسی جماعت گرینز میں شمولیت یوں اختیار کی کہ گرینز کی پالیسیوں اور ان کے کام میں بہت مماثلت تھی۔ حال ہی میں سات خواتین میں سے گرینز کے سینکڑوں کارکنوں نے انہیں آسٹریلین پارلیمنٹ میں بطور ممبر منتخب کیا۔ مہرین ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے ایوان ِ بالا کے لیے رکن منتخب کی گئی ہیں اور ماحولیات، خواتین کے سٹیٹس، ٹرانسپورٹ اور ملٹی کلچرل ازم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔
مہرین کی تقرری کے بعد سے میڈیا میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا بطور مسلمان خاتون ان کے لیے آسٹریلیا کی سیاست میں جگہ بنانا آسان ہوگا یا نہیں؟ ۔۔۔ ڈاکٹر مہرین کا کہنا ہے کہ آسڑیلیا میں جمہوریت اور مذہب دو الگ شعبے ہیں اور یہ کہ انہیں آسٹریلین پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت گرینز کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ہے نہ کہ ان کے مذہبی عقائد کی ترجمانی کے لیے۔ مہرین کے مطابق ان کا مذہب اور عقیدہ بھی ان کی زندگی کا ایک اہم جزواور پہلو ہے لیکن وہ اسے اپنی سیاست سے الگ رکھنا پسند کریں گی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی مہرین اکیس برس پہلے پاکستان سے آسٹریلیا جا بسی تھیں۔ آسٹریلیا میں ایک عرصے سے رہنے کے باوجود پاکستان ان کے دل سے نکلا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شعبے کی مہارت کو اپنے تک محدود نہیں رکھنا چاہتی اور ہر کچھ عرصے بعد پاکستان جا کر مختلف شعبہ جات میں کبھی طلباء کی رہنمائی کرتی ہیں تو کبھی کسی این جی او کے ساتھ مل کر مختلف پروجیکٹس پر کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
بطور خاتون مہرین کے لیے یہ سفر کتنا مشکل رہا؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، ’عورت پاکستان کی ہو یا کہ آسٹریلیا کی، اسے معاشرے میں جگہ بنانے اور اپنا وجود منوانے کے لیے محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘ مہرین کہتی ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں 80ء کی دہائی میں اس وقت بطور انجینئیر نوکری کی، جب اس شعبے میں اکا دکا ہی خواتین کام کرتی تھیں۔ لیکن والدین اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی سے ہی ان کے لیے اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ممکن ہوسکا۔
مہرین سے گفتگو کی مزید تفصیل کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔