جمہوریت کا بنیادی اصول: ’ہر ووٹ اہم ہے‘۔ بدقسمتی سے، جب آخری بار ریپبلیکن ووٹروں نے آئیووا کے کاؤکس میں شرکت کی، کچھ ووٹ شامل ہونے سے رہ گئے، چونکہ رپورٹنگ کے عمل میں غلطیاں تھیں، اور ہوا یہ کہ یہ ووٹ شمار میں شامل نہ ہو سکے۔
اِس بار، آئیووا اہل کاروں کو امید ہے کہ مائکروسوفٹ کی جانب سے وضع کردہ ٹیکنالوجی سنہ 2012 کے اس المیے کا تدارک کر سکے گی۔ مائکروسوفٹ نے دو ’موبائل ایپس‘ تیار کی ہیں، جن میں سے ہر پارٹی کی ایک ایپ ہے، تاکہ حساب رکھا جائے اور کاؤکس کے نتائج شمار میں شامل ہونے سے نہ رہ جائیں۔
چارلی زود آئیووا میں ریپبلیکن پارٹی کے مواصلات کے سربراہ ہیں۔ ایک انٹرویو میں اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ’’اِس کی مدد سے اطلاع دینے کا عمل تیز، مزید کارآمد اور زیادہ معیاری ہوگا‘‘۔
سنہ 2012میں کیا ہوا تھا؟
پچھلے انتخابات کے دوران، آئیووا کاؤکسز کے مختلف مقامات پر فرائض دینے والے کپتانوں نے ریاست کی کسی سطح سے موصول ہونے والے نتائج کی اطلاع ٹیلی فون پر حاصل کی اور نتائج کا شمار کیا۔
زوڈ نے کہا کہ ’’آپ ایک عدد بتاتے ہیں جسے آپ عام زبان میں فون کے ’کی بورڈ‘ پر ٹائپ کرتے ہیں کہ ہر امیدوار کو کتنے ووٹ پڑے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اِس لیے آپ کی نظریں وہ کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں، جسے آپ درج کر رہے تھے؛ بس آپ کو اس بات کا پتا ہونا چاہیئے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست ہے۔ اس کے باعث لکھنے میں غلطیاں ہوئیں، مثلاً، ہو سکتا ہے آپ نے ’5‘کا بٹن ایک سے زیادہ بار دبا دیا ہو، اِسی طرح کا معاملہ‘‘۔
سنہ 2012میں اطلاع دینے کے عمل میں کہیں نہ کہیں غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن، ریپبلیکن پارٹی کے اہل کاروں کو اُس وقت تک احساس نہ ہوا جب تک تاخیر ہو چکی تھی، اُس وقت تک مِٹ رومنی کو فاتح قرار دیا جاچکا تھا۔
کچھ ہی ہفتے بعد، ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے دوران پتا چلا کہ درحقیقت رِک سنٹورم جیتے تھے۔
اس غلطی کے باعث، سنٹورم اگلی پرائمری کے اہم مرحلے تک پہنچ ہی نہیں پائے، جس میں جیت رومنی کی بتائی گئی، جو بالآخر ریپبلیکن پارٹی کے امیدور نامزد ہوئے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ آٹھ حلقوں کے ووٹوں کا شمار ہو ہی نہیں سکا۔
زوڈ کے مطابق، نئی ایپ میں از خود انتظام موجود ہے جس کی مدد سے غلطیاں پکڑ لی جاتی ہیں اور اطلاع اور اندراج کے عمل میں درستگی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی غیرمعمولی نوعیت کی بات ہوتی ہے تو اُس کی نشاندہی ہوجاتی ہے، اور یوں ہم اطلاع دیتے والے سے رابطہ کرتے ہیں یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا ایک ہی امیدوار کو 5000 ووٹ پڑے ہیں، جیسا کہ نظر آ رہا ہے، جب کہ پتا یہ چلتا کہ امیدوار نے مجموعی طور پر 50 سے زیادہ ووٹ لیے ہی نہیں‘۔
نئی ایپ کے بارے میں خدشات؟
دونوں پارٹیاں کئی ماہ سے اس نئی ایپ کے بارے میں کاؤکس کے منتظمین کو تربیت فراہم کر رہی ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں کچھ بے تابی بھی پائی جاتی ہے، جو کسی نئی ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے پر ہوا کرتی ہے۔ تاہم، اہل کاروں کو اعتماد ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوگا۔
آئیووا ڈیموکریٹک پارٹی کے پریس سکریٹری، جوش لیوت کے بقول، ’’اِس پر میں بہت سا وقت لگا رہا ہوں یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ کاؤکسز کے سارے 1681 مقامات پر بیٹھے ہوئے لوگ با اعتماد طور پر یہ ایپ استعمال کریں؛ اور اُنھیں اس بات کی آگہی ہو کہ جو اطلاع اُنھیں درج کرنی ہے اُس کے بارے میں اُنھیں پوری دسترس حاصل ہوچکی ہے‘‘۔
اُنھوں نے وی او اے کو بتایا کہ، ’’محتاط انداز اپناتے ہوئے، روایتی ٹیلی فون پر رپورٹنگ کا نظام بھی جاری رہے گا، تاکہ نئے نظام میں کسی مسئلے کی صورت میں کوئی منتظم پرانے نظام کو استعمال کرسکے‘‘۔
دونوں پارٹیوں کی مشترکہ کوشش
مائکروسوفٹ کے ستن فریک، جنھوں نے اس پراجیکٹ کو مکمل کیا اور یہ نئی ایپ مرتب ہوئی۔ وہ تبھی اس امریکی انتخابی عمل میں ملوث ہوئے جب اُنھیں بتایا گیا کہ دونوں سیاسی پارٹیاں ایسی ایپ کو ترتیب دینے کے حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2012 میں غلط شمار سامنے آنے پر، اِس ایپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔
فریک نے وی او اے کو بتایا کہ ’’ہم نے یہ سوچا کہ یہ ایک موقع ہے جب سب کے لیے ایک سہولت میسر آئے گی، جو امریکی عوام اور بحیثیتِ مجموعی ملک بھر کے لیے اہمیت کی باعث ہے‘‘۔
فریک نے کہا ہے کہ آئندہ کے انتخابات کے دوران ووٹنگ اور اطلاع کے عمل میں ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کرے گی۔