|
ایران میں حالیہ دنوں میں کارکنوں کے مظاہروں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم ایرانی حکام کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کوئی پرتشدد کریک ڈاؤن نہیں ہوا جیسا کہ اس نے ایک سال قبل خواتین کے حقوق کی تحریک کو کچلنے کے لیے کیا تھا۔
حالیہ عرصے میں کارکنوں کا سب سے بڑا مظاہرہ ملک کے جنوب مغربی شہر اہواز میں ہوا جس میں ایران نیشنل اسٹیل انڈسٹریل گروپ کے کارکنوں نے حصہ لیا۔
ایرانی کارکنوں سے منسلک ایک ٹیلی گرام چینل نے منگل سے جمعرات کے دوران ہونے والے مظاہروں کی تصویریں اور ویڈیوز شائع کی ہیں جن میں انہیں اسٹیل پلانٹ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان ویڈیوز میں مظاہرین میں اس بات کی مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انتظامی عہدے داروں نے کام کے حالات بہتر بنانے اور معطل کیے جانے والے کارکنوں کو بحال کرنے کے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
منگل کے روز احتجاج کی ایک ویڈیو میں فیکٹری کی یونیفارم میں ملبوس کارکن یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ انہیں دھمکیوں اور جیل سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔
وائس آف امریکہ آزادانہ طور پر ان تصاویر اور ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکتا کیوں کہ اسے ایران میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دیگر آن لائن رپورٹس اور وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کے مطابق پیر کے روز ٹیلی کام کمپنی سے ریٹائر ہونے والے کارکنوں نے کم از کم 10 صوبوں میں جمع ہو کر مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پینشن کے حقوق نہ دیے جانے پر احتجاج کیا اور مالیاتی نظام میں کرپشن اور ظلم و جبر کے خلاف نعرے لگائے۔
ایران میں مزدور اور کارکن عام طور پر فارسی سال کے اختتام سے قبل اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ فارسی سال 19 مارچ کو ختم ہو رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسلامی جمہوریہ ایران کی لیبر کونسل نئے سال کے لیے کم از کم اجرت کا تعین کر کے اس کا اعلان کرتی ہے۔
اس کونسل میں ایرانی وزارت محنت کے نمائندے، آجر اور کارکن شامل ہیں جنہیں حکومت سے وابستہ اسلامی لیبر کونسل منتخب کرتی ہے۔ ایران میں زیادہ تر کارکنوں کی موجودہ کم از کم اجرت تقریباً 160 ڈالر ماہانہ ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مغرب کی جانب سے عائد معاشی پابندیوں، حکومتی بدعنوانی اور بدانتظامی کی وجہ سے ملک کی معیشت مزید کمزور ہو گئی ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے ایرانیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں افراطِ زر کی شرح جس سے مہنگائی جنم لیتی ہے 47 فی صد ہے اور مجموعی قومی آمدنی میں اضافے کی رفتار تقریباً تین فی صد سالانہ ہے۔
مہنگائی، آمدنی میں کمی، اخراجات میں اضافہ اور کرپشن کارکنوں میں بے چینی بڑھاوا دے رہی ہے اور وہ سڑکوں پر آ کر اپنی برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔
حکومت فی الحال تحمل سے کام لے رہی ہے اور اس پکڑ دھکڑ کا مظاہرہ نہیں کر رہی جس کا اس نے ستمبر 2022 میں مناسب طریقے سے حجاب نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کی جانے والی ایک نوجوان کرد خاتون کی دوران حراست ہلاکت کے بعد مظاہروں کو دبانے کے لیے کیا تھا۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں گرفتار ہوئے تھے۔
(مشیل لیپین، وی او اے نیوز)
فورم